ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت ( مبارکپوری )
ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت ( مبارکپوری )
مصنف : غازی عزیر مبارکپوری
صفحات: 416
حدیث شریف دین کا دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ اور بلاشبہ اسلام کے جملہ عقائد واعمال کی بنیاد کتاب وسنت پر ہے اور حدیث درحقیقت کتاب اللہ کی شارح اور مفسر ہے اور اسی کی عملی تطبیق کا دوسرا نام سنت ہے۔ نبی کریمﷺکو جوامع الکلم دیئے اور آپ کوبلاغت کے اعلیٰ وصف سے نوازہ گیا ۔ جب آپﷺ اپنے بلیغانہ انداز میں کتاب اللہ کے اجمال کی تفسیر فرماتے تو کسی سائل کو اس کے سوال کا فی البدیع جواب دیتے۔ تو سامعین اس میں ایک خاص قسم کی لذت محسوس کرتے اوراسلوبِ بیان اس قدر ساحرانہ ہوتا کہ وقت کے شعراء اور بلغاء بھی باوجود قدرت کے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے ۔احادیثِ مبارکہ گوآپﷺ کی زندگی میں مدون نہیں ہوئیں تھی تاہم جو لفظ بھی نبیﷺ کی زبانِ مبارکہ سے نکلتا وہ ہزار ہا انسانوں کے قلوب واذہان میں محفوظ ہو جاتا اور نہ صرف محفوظ ہوتا بلکہ صحابہ کرام اس کے حفظ وابلاغ اور اس پر عمل کے لیے فریفتہ نظر آتے ۔یہی وجہ تھی کہ آنحصرت ﷺ کے سفر وحضر،حرب وسلم، اکل وشرب اور سرور وحزن کے تمام واقعات ہزارہا انسانوں کے پاس آپ کی زندگی میں ہی محفوظ ہوچکے تھے کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور نہ ہی آئندہ ایسا ہونا ممکن ہے-۔خیر القرون کے گزر نے تک ایک طرف تو حدیث کی باقاعدہ تدوین نہ ہوسکی اور دوسری طرف حضرت عثمان کی شہادت کے ساتھ ہی دور ِ فتنہ شروع ہوگیا جس کی طرف احادیث میں اشارات پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ فتنے کسی ایک جہت سے رونما نہیں ہوئے بلکہ سیاسی اور مذہبی فتنے اس کثرت سے ابھرے کہ ان پر کنٹرول ناممکن ہوگیا۔ان فتنوں میں ایک فتنہ وضع حدیث کا تھا۔اس فتنہ کے سد باب کے لیے گو پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر ہی بعض علمائے تابعین نے کوششیں شروع کردی تھی۔اور پھر اس کے بعد وضع حدیث کے اس فتہ کوروکنے کے لیے ائمہ محدثین نے صرف احادیث کوجمع کردینے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ سنت کی حفاظت کے لیے علل حدیث، جرح وتعدیل، اور نقد رجال کے قواعد اور معاییر قائم کئے، اسانید کے درجات مقرر کئے۔ ثقات اور ضعفاء رواۃ پر مستقل تالیفات مرتب کیں۔ اور مجروح رواۃ کے عیوب بیان کئے۔ موضوع احادیث کو الگ جمع کیا او ررواۃ حدیث کےلیے معاجم ترتیب دیں۔ جس سے ہر جہت سے صحیح، ضعیف ،موضوع احادیث کی تمیز امت کے سامنے آگئی۔اس سلسلے میں ماضی قریب میں شیخ البانی کی کاوشیں بھی لائق تحسین ہیں۔ امت محمدیہ ﷺ میں جہاں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو حدیثِ رسول کودین کے مآخذ کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے منکر رہے ہیں وہاں چند ایسے جری دروغ گو بھی موجود رہے ہیں جنہوں نے صدہا احادیث وضع کر کے نبی کریم ﷺ کے نام مبارک سے لوگوں میں پھیلا کر حدیث مبارکہ ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اس نے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنایا‘‘ کا مصداق بنے۔ جبکہ صحیح حدیث باتفاق امت واجب العمل ہے۔ البتہ ضعیف احادیث کے متعلق علماء امت کا نظریہ مختلف رہا ہے۔ چند علماء فضائل اعمال کے بارے میں وارد احادیث پر عمل کے جواز کے قائل ہیں جبکہ کچھ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک کوئی حدیث مکمل طور پر محقق نہ ہو اس پر عمل کے لیے ایک مسلمان کو کسی طور پر بھی مکلف نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ زیر نظر کتاب ’’ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت‘‘ ہندوستان کے ممتاز عالم دین غازی عزیر مبارکپوری ﷾ کی تصنیف ہے۔ اس سے قبل بھی فاضل مصنف نے اس موضوع پر اسی نام سے کتاب کو تألیف کیا تھا مگر مذکورہ کتاب فاضل مصنف کی اسی موضوع پر ہے اور اسمیں مزید مفید اضافے کیے ہیں۔جس میں انہوں نے ضعیف حدیث کی پہنچان اور اس کی شرعی حیثیت کے حوالے سے مستند حوالہ جات سے مزین مباحث کی پیش کی ہیں۔ اس موضوع پر اس کتاب سے قبل عربی زبان میں تو کافی مواد موجود تھا لیکن اردو زبان میں اتنا مستند اور تفصیلی مواد نہ تھا۔ لیکن کتاب ہذا کے مصنف موصوف نے بڑی محنت سے اردو داں طبقہ کےلیے یہ کتاب مرتب کی جو کہ طالبان ِعلوم نبوت کے لیے گراں قدر علمی تحفہ ہے۔ کتاب کے مصنف طویل عرصہ سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔اپنی روز مرہ کی مصرفیت کے علاوہ اچھے مضمون نگار، مصنف ، مترجم بھی ہیں۔ موصوف نے جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور کے زیر نگر انی چلنے والے ادارے ’’معہد العالی للشریعۃ والقضاء ‘‘ میں حصول شہادہ کے لیے 1995ء میں ایک تحقیقی وعلمی ضخیم مقالہ بعنوان ’’اصلاحی اسلو ب تدبر حدیث ‘‘ تحریر کیا۔ جو کہ بعد میں پہلے انڈیا اور پھر پاکستان میں مکتبہ قدوسیہ کی طرف سے ’’انکار حدیث کا نیا روپ‘‘ کے نام سے دوجلدوں میں شائع ہوا۔ یہ مقالہ الحمد للہ کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کئی علمی وتحقیقی مضامین پاک وہند کے علمی رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور ان کی جہود کو قبول فرمائے۔ (آمین)
عناوین | صفحہ نمبر |
اغاز کتاب | 15 |
عرض مولف | 17 |
عرض مولف | 19 |
پیش نظر کتاب علماء کی نظر میں | 23 |
ضعیف حدیث کی تعریف ،اسباب ضعف اوراقسام ضعیف | 35 |
لغوی تعریف | 37 |
اصطلاحی تعریف | 37 |
اسباب ضعف | 40 |
(الف)سقوط سند کے باعث ضعف | 40 |
سقوظ سند کی اقسا م | 40 |
(1)سقوط ظاہر ی | 40 |
(2)سقوط خفی | 41 |
(ب)راوی پر طعن کے باعث ضعف | 41 |
راوی پر طعن کے اسباب | 41 |
(1)راوی کی عدالت وثقابت کو مجروح کرنے والے اسباب | 42 |
1۔کذب | 42 |
2۔تہمت کذب | 42 |
مدرج | 75 |
مطلوب | 77 |
مضطرب | 79 |
مزید فی متصل الانید | 81 |
مصحف | 82 |
شاذ | 84 |
موقوف | 86 |
مقطوع | 88 |
3۔ضعیف احادیث کی روایت سے متعلق چند ضروری آداب شرائط اور اصول | 91 |
1۔کسی حدیث کو باسناد وضعیف پا کر فی الجملہ اس حدیث کو ضعیف المتن نہ کہا جائے | 93 |
2۔’’صحیح ‘‘کو بصیغہ تمریض اور ضعیف کو بصیغہ جزم بیان کرنا خلاف اصو لہے | 93 |
ابن فورک او رابن حجر ہتیمی کا اصول سے انحراف | 95 |
ضعیف وموضوع احادیث کی مشکلات کے حل کاتکلف نہ کیا جائے | 95 |
4۔ضعیف حدیث کی روایت کاحکم | 98 |
5۔صحیح اور ضعیف احادیث میں تمیز کی ضرورت | 100 |
6۔ضعیف احادیث کا ضعف بیان نہ کرنا باعث گناہ اور دین میں دھوکہ بازی ہے | 104 |
7۔ضعیف حدیث کی روایت کیوں جائز ہے | 106 |
8۔’’غیر صحیح ‘‘اور موضوع ‘‘حدیث میں فرق | 108 |
9۔متابعت بالضیف | 108 |
10۔تفاوت ضعیف | 108 |
11۔الضعیف لایعل بہ الصحیح | 110 |
4۔ضعیف احادیث کے چند مشہور مراجع ومصادر | 113 |
5۔بعض فقہاء کے نزدیک معتبر چند اصول حدیث | 117 |
1۔قول :ھذا احدیث صحیح ‘‘‘ سے مراد نفس الا مر میں حدیث کاقطعی صحیح ہونا نہیں ہوتا | 119 |
2۔قول :ھذا حدیث غیر صحیح ‘‘سے مراد نفس الامر میں حدیث کذب ہونا نہیں ہوتا | 117 |
3۔ضعف وصحت کاحکم ظاہر کی حیثیت سے ہوتا ہے جس میں صحیح کے موضوع یا اس کے برعکس ہونے کااحتما ل رہتاہے | 120 |
4۔کسی فقیہ ومجتہد کاکسی حدیث سے استدلال کرناہی اس کی تصحیح ہوتا ہے خواہ وہ ضعیف ہی ہو | 123 |
5۔اگر ضعیف حدیث میں صحت کاقرینہ پایا جائے تووہ قابل احتجاج ہوتی ہے | 124 |
6۔مختلف فیہ حدیث حسن ہوتی ہے | 143 |
7۔مختلف فیہ راوی حسن الحدیث ہوتاہے | 143 |
8۔ضعیف روایت سے احد المخملات کی تعبین ہو سکتی ہے | 145 |
9۔ضعیف اور مضعف کے درمیان فرق | 145 |
10۔اعتضاد با لضعیف کااصول | 147 |
6۔معرفت حدیث سے متعلق چند اہم اصول ومسائل کی تشریح | 151 |
1۔قول :بحالہ رجال الصحیح ‘‘صحت حدیث کی دلیل نہیں ہوتا | 153 |
2۔رجال سند کاثقہ ہوناصحت حدیث کے لیے کافی نہیں ہے | 155 |
3۔قول :اصح شی فی لباب سے صحت حدیث مراد نہیں ہوتی | 156 |
4۔قول :ھذا من ذاک ‘‘بھی صحت حدیث کی دلیل نہیں ہوتا | 158 |
5۔قول :فیہ مقال ‘‘اور فی اسنادہ مقال ؏؏سے محدثین کی مرا٭د | 159 |
6۔’’صحیح الاسناد ‘‘اور حسن الاسناد احادیث کامرتبہ | 159 |
7۔جب خبر ثابت ہوجائےتو اصل شریعت ہوتی ہے | 160 |
8۔ہر صحیح حدیث کو قبول کرنا شرعا لازم ہے خواہ کسی کاقول وعمل اس کے خلاف ہی ہو | 160 |
9۔کشف ،الہام ،خواب:اور ذوق کےذریعہ احادیث نبوی ثابت نہیں ہوتی | 162 |
ابن عربی او رعجلونی وغیرہ کااس اصول سے انحراف | 167 |
10۔حدیث کی تصحیح :تحسین وتضعیف میں اختلاف بین المدثین کی وجوہ | 177 |
11۔رواۃۃ حدیث کی توثیق وتضعیف بھی اجتہادی امر نہیں ہے | 180 |
ائمہ جرح وتعدیل کے مابین اختلاف رائے کی وجوہ | 182 |
12۔ضعیف حدیث کے استحباب ثابت نہیں ہوتا | 185 |
علامہ دوائس او رخفائی کے مابین مناقشہ | 186 |
اما م ابن تیمیہ ملاعلی قاری اور شیخ محمدناصر الدین البانی کااستحباب بالضعیف کی نفی فرماتا | 190 |
13۔ہر ضعف حدیث کی تعدوطرق کی بناپ رحسن کہنا ایک بڑی خطاہے | 191 |
اس بارے میں صحیح مسلک | 197 |
14۔علم درایت الحدیث کی تاریخ اس کے مبادی وصول او رحدیث فہمی میں اس کاکردار | 203 |
کسی روایت کو قرائن عقل کے مطابق پر کھنا درایت نہیں کہاجاتا | 206 |
15۔حدیث کی اصطلاح حسن امام ترمذی کی ایجاد نہیں ہے | 211 |
علی بن مدینی اور امام بخاری کاکلمہ حسن استعمال فرمانا | 213 |
امام احمد بن حنبل کاکلمہ حسن استعمال فرمانا | 216 |
امام مالک کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 218 |
امام شافعی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 219 |
امام طیالسی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 219 |
یحیی بن معین کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 220 |
حافظ محمد بن عبداللہ ابن نمیر کا کلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 220 |
ابن ابرقی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 220 |
امام ذہلی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 220 |
امام عجلی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 221 |
امام یعقوب بن شیبہ کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 221 |
امام ابو زرعہ کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 223 |
امام ابو حاتم الرازی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا | 223 |
علامہ کشمیر ی کی ابن تیمیہ کا دعوی پر تنقید | 224 |
16۔امام ترمذی کاتصحیح وتحسین حدیث میں تساہل مشہور ہے | 225 |
17۔حسن حدیث عند الجمہور حجت اور معمول بہ ہوتی ہے | 227 |
7۔ضعیف احادیث پر عمل کےمتعلق اسلاف مہنج | 231 |
ضعیف حدیث کااحکام ،حلال وحرام او رعقائد میں غیر مقبول ہونامگر جبکہ اس میں احتیاط کاپہلو ہو | 233 |
امام نووی کااحکام میں احادیث ضعیفہ سےاحتجاج کی مذمت فرمانا | 235 |
فضائل اعمال اورترغیب وترہیب وغیرہ میں ضعیف حدیث کامقبول ہونا علماء کے نزدیک محل نزاع ہے | 236 |
(الف )علماء جن کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقا قابل قبول ہے | 236 |
ابو داؤد اور نسائی کاضعیف اسناد کی تخریج فرمانا او راس کاسبب | 237 |
امام احمد بن حنبل کا ضعیف احادیث کو قیاس پر ترجیج دینا | 239 |
مسنداحمد کی شروط سنن ابو داؤد کی شروط سے بہتر ہیں | 240 |
امام احمد کاکلمہ ضعیف سےمراد حسن ہوتی ہے امام ابن تیمیہ وغیرہ کادعوی | 241 |
علامہ کشمیری کاابن قیم کی ایک کتا ب پر ظلم | 242 |
امام احمد صالح المصری کا اما م احمد بن حنبل کےمسلک سےاتفاق | 245 |
امام شافعی کاضعیف حدیث کی وقیاس پر ترجیج دینا | 247 |
علمائے حنیفہ کے نزدیک بھی ضعیف حدیث قیاس واجتہاد سے اولی ہے | 247 |
ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیج دینے کاسبب | 249 |
حافظ عراقی وغیرہ کااس مسلک کو مقسح بیان فرمانا | 250 |
(ب)علماء جن کےنزدیک ضعیف حدیث مطلقا مقبول نہیں صرف فضائل اعمال اورترغیب وترہیب وغیرہ میں بلاقید شروط مقبول ہوتی ہے | 250 |
چند مقبول ضیعف روایات کی مثالیں | 259 |
بلاتحقیق وتمیز کسی ضعیف حدیث کو قبول کرنا بداندلشیی کی بات ہے | 260 |
ضعیف حدیث پر عمل کی رخصت ظن مرجونع کافائدہ دیتی ہے | 263 |
(ج)علماء جن نزدیک فضائل اعمال وغیرہ میں ضعیف حدیث چند شرائط کے ساتھ مقبول ہوتی ہے | 264 |
فضائل اعمال ضعیف حدیث کی شرائط قبول اوران کی تشریح شرائط قبول کاعلمی جائز ہ | 270 |
شرائط قبول کاالتزام دائرہ عمل کوتنگ کرتاہے | 270 |
عوامی سطح پرپہلی شرط کےالتزام کی توقع بعید ازامکان ہے | 271 |
کسی اصل عام کےتحت داخل ہونے سےعمل ضعیف حدیث پر نہیں بلکہ اس اصل عام سےتحت ہوتاہے | 271 |
تیسری شرط خود ضعیف حدیث پر عمل ترک کرنے کی متقاضی ہے | 273 |
فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کی شرائط قبول اور احافظ ابن حجر عسقلانی | 274 |
مذکورہ بالاشرائط قبول سےانحراف کی چند مثالیں | 275 |
پہلی حدیث | 275 |
دوسری حدیث | 280 |
تیسری حدیث | 290 |
چوتھی حدیث | 298 |
پانچویں حدیث | 300 |
چھٹی حدیث | 303 |
ساتویں حدیث | 304 |
آٹھویں حدیث | 307 |
نویں حدیث | 309 |
دسویں حدیث | 312 |
حاصل کلام | 314 |
(د)علماء جن کے نزدیک ضعیف حدیث پر عمل مطلقاناجائز ہے | 315 |
حضرت قتادہ کا موقف | 315 |
امام محمد بن یحیی الذہلی کا موقف | 316 |
امام احمد بن زید بن ہارون کاموقف | 316 |
امام یحیی بن محمد بن یحیی کاموقف | 316 |
امام یحیی بن معین او رابن عربی کامسلک | 317 |
امام بخاری کےمتعلق احادیث ترغیب وترہیب میں تساہل کادعوی باطل ہے | 317 |
امام بخاری وغیرہ کاعلی اطلاق ضیعف حدیث کو اخذ کرنے سے منع فرمانا شیخ کو ثری کی صراحت | 321 |
اما م مسلم کاضعیف احادیث کی روایت کرنے او رانھیں اپنانے کی مذمت فرمانا | 322 |
امام ابن حبان کاضعیف حدیث پر عمل جائز نہ سمجھنا | 323 |
علامہ خطیب بغدادی کامسلک | 324 |
ابو شامہ المقدطبی کاحافظ ابن عساکر پر تعاقب فرمانا | 325 |
امام شاطبی الغرنانی کی وضاحت | 325 |
اما م ابن حزم کامسلک | 328 |
امام ابن تیمیہ کاموقف | 329 |
علامہ شوکانی کی حافظ ابن عبدلبر کے کلام پر تنقید | 332 |
شیخ احمد محمد شاکر کاضعیف حدیث پر عمل سے منع فرنانا | 332 |
عصر حاضر کے بعض مشاہیرہ کی تصریحات | 333 |
شیخ الالبانی کےاقوال | 334 |
ڈاکٹر صحبی صالح کی رائے | 336 |
مولنا امین احسن اصلاحی صاحب کےنظریات | 337 |
پیر محب اللہ شاہ راشدی صاحب کی رائے | 338 |
مولا نا شمس پیر زاد ہ صاحب کی رائے | 340 |
مولانا حبیب الرحمن صدیقی کاندھلوی صاحب کی حق پسندی | 341 |
ڈاکٹر عبدالرحمن عبدالجبار فریوائی صاحب کی رائے | 342 |
مولانا محمد اسحاق کےکلمات | 344 |
حاصل کلام | 345 |
8۔ضمیعہ :فضیلت کے بارے میں واردہ ایک زبان زد حدیث | 351 |
حضرت جابر بن عبداللہ کی مرفوع حدیث کاعلمی جائزہ | 353 |
حضرت ابن عمر کی حدیث کاعلمی جائز ہ | 358 |
پہلی حدیث | 358 |
دوسری حدیث | 361 |
حضرت انس ؓ کی حدیث کاعلمی جائزہ | 363 |
پہلی حدیث | 363 |
دوسری حدیث | 365 |
تیسری حدیث | 367 |
چوتھی حدیث | 368 |
اس باب کی چند دوسری روایات اور مشاہیر علماء کی آراء | 371 |
بعض علماء کی پیش کردہ کمزور تاویلات اور ان کاجائز ہ | 373 |
علامہ سیوطی کی تائیدات اور ان کا اجائزہ | 374 |
علامہ سیوطی کا تنقیح تحقیق تصحیح وتضعیف میں تساہل | 374 |
علامہ سیوطی کاایک منامی روایت کو دلیل بنانا | 375 |
ملاعی قاری کی تاویلات اور ان کاجائز ہ | 377 |
پہلااختلاف | 380 |
دوسرا ختلاف :ضعیف وموضوع حدیث کی مشکلات کےجواب کاتکلف محدثین کےاصول سےانحراف ہے | 380 |
تیسرا اختلاف :عمومات میں ادراج کسی روایت کےثبوت کی دلیل نہیں | 381 |
چوتھااختلاف:کسی ضعیف یاموضوع روایت کی ظنی طور پر صحت سندپر محمول کرنا درست نہیں ہے | 383 |
پانچواں اختلاف:ابن حجر مکی کے اس قول کی حقیقت کہ کسی حدیث کی تصحیح ،تحسین ،وتضعیف کا حکم بحثییت ظاہر ہوتا ہے جس میں صحیح کے موضوع ہونے اور موضوع کے صحیح ہونے کااحتمال باقی رہتاہے | 383 |
چھٹااختلاف:ابن حجر مکی زیر نظر حدیث سے پوری طرح باخبر ن ہونا نیز تاویل حدیث کاآں ؒ کی طریف انتساب مشکو ک ہے | 383 |
خلاصہ کلام :حدیث زیر نظر موضوع ہے اس کے آثار سیہ ہیں | 385 |
9۔اشاریہ : | 389 |
1۔آیا ت قرآنیہ | 390 |
2۔اخبار واحادیث | 391 |
3۔تراجم رواۃ | 397 |
4۔مراجع ومصادر | 400 |