وجود باری تعالیٰ۔ فلسفہ، سائنس اور مذہب کی روشنی میں
وجود باری تعالیٰ۔ فلسفہ، سائنس اور مذہب کی روشنی میں
مصنف : ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
صفحات: 224
وجود باری تعالی فلسفہ، سائنس اور مذہب تینوں کا موضوع رہا ہے۔ عام طور اصطلاح میں اُس علم کو الہیات (Theology) کا نام دیا جاتا ہےکہ جس میں خدا کے بارے بحث کی گئی ہو۔ اس کتاب میں ہم نے فلسفہ ومنطق، سائنس وکلام اور مذہب وروایت کی روشنی میں وجود باری تعالی کے بارے میں بحث کی ہے۔ وجود باری تعالی کے بارے بڑے نظریات (mega theories) چار ہیں۔ نظریہ فیض، نظریہ عرفان،نظریہ ارتقاء اور نظریہ تخلیق۔ یہ واضح رہے کہ چوتھے نقطہ نظر کو ہم محض اس کی تھیورائزیشن کے عمل کی وجہ سے تھیوری کہہ رہے ہیں کہ اب اس عنوان سے نیچرل اور سوشل سائنسز میں بہت سا علمی اور تحقیقی کام منظم اور مربوط نظریے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے جبکہ حقیقت کے اعتبار سے یہ محض تھیوری نہیں بلکہ امر واقعی ہے۔ پہلا اور دوسرا نقطہ نظر فلاسفہ کا ہے کہ جو افلاطونی، نوافلاطونی، مشائین، اشراقین، عرفانیہ اور حکمت متعالیہ میں منقسم ہیں۔ افلاطونی اور مشائین کے علاوہ بقیہ کے ساتھ صوفی ہونے کا ٹیگ بھی لگا ہوا ہے دراں حالانکہ یہ صوفی کی بجائے دراصل افلاطونی، مشائی اور نوافلاطونی ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی گروہ وجود باری تعالی کے مسئلے میں متقدمین اور محققین صوفیاء پر اعتماد نہیں کر رہا بلکہ صحیح معنوں میں افلاطون (348-424 ق م)، ارسطو (348-424 ق م)اور فلاطینوس (205-270ء) کے رستے پر ہیں۔ تیسرا نقطہ نظر دہریوں اور منکرین خدا (Atheists) کا ہے کہ نیچرل سائنسز کے رستے ماہرین حیاتیات (Biologists) اور ماہرین طبیعیات (Physicists) کی ایک جماعت نے اس نظریے کو اختیار کیا ہے۔ وجود کے بارے یہ موقف نظریاتی فزکس اور نظریاتی بائیالوجی کے ماہرین کے ہاں معروف ہے۔ چوتھا نقطہ نظر صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ، محدثین عظام، متقدمین صوفیاء اور متکلمین رحمہم اللہ کا ہے۔ دوسرے نقطہ نظر نے صرف خالق کے وجود کو حقیقت جبکہ تیسرے نے صرف مخلوق کو حقیقت جانا۔ اور پہلے اور چوتھے نقطہ نظر میں خالق اور مخلوق دونوں کا وجود الگ الگ حقیقت ہیں۔ اس کتاب میں تین ابواب میں تینوں مکاتب فکر کےچاروں نقطہ ہائے نظر کا عقلی ونقلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
عناوین | صفحہ نمبر |
مقدمہ | 4 |
باب اول: وجود باری تعالیٰ اور فلسفہ و منطق | 8 |
نظریہ فیض | 9 |
نظریہ عرفان | 20 |
نظریہ ارتقاء | 26 |
نظریہ تخلیق | 26 |
وجود کی تعریف | 28 |
وجود کا معنی و مفہوم | 30 |
وجود کا اشتراک | 34 |
وجود مطلق | 35 |
وجود اور موجود کے فرق | 43 |
مراتب و جود | 43 |
وجود اور ماہیت میں فرق | 47 |
معدومم کا حالت عدم میں ثبوت | 49 |
وجود کے علم کے مآخذ | 52 |
وجود کا علم | 55 |
وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا فرق | 58 |
اصل سوال کیا ہے؟ | 62 |
باب دوم: وجود باری تعالیٰ اور سائنسی نظریات | 69 |
نظریہ انفجار عظیم (Big Bang) | 71 |
نظریہ ارتقاء (Theory of Evolution) | 83 |
قرآن اور سائنس | 85 |
دہریت اور الحاد (Atheism) | 89 |
ملحدین کی حکمت عملی | 89 |
ملحدین کے مذہبی رویے | 91 |
الحاد کی اقسام اور اسباب | 93 |
الحاد کا رد | 95 |
الحاد کا علاج | 97 |
’’سائنس‘‘ اور فلاسفی آف سائنس‘‘ میں فرق | 103 |
مذہبی معتقدات اور سائنسی ایمانیات | 104 |
مذہب، سائنس اور سوال | 109 |
فوسلز ریکارڈ | 113 |
شبہے کا پہو | 110 |
خدا کے وجود کے دلائل | 116 |
خلاصہ کلام | 131 |
باب سوم: وجود باری تعالیٰ اور مذہب و کلام | 134 |
قدیم انسان کی تاریخ | 136 |
وجود باری تعالیٰ کے تعارف کے مصادر اور مآخذ | 143 |
اسماء صفات باری تعالیٰ کے بارے میں فلسفیانہ اور کلامی نقطہ ہائے نظر | 144 |
تنزیہ میں غلو | 145 |
تشبیہ میں غلو | 145 |
اسماء و صفات باری تعالیٰ | 154 |
سلف صالحین اور ائمہ اربعہ کے عقیدہ کے عقلی و منطقی دلائل | 164 |
معنی اور کیفیت میں فرق کی بحث اور تجسیم کا طعن | 167 |
اللہ کہاں ہے؟ | 171 |
عرش کہاں ہے؟ | 189 |
آسمان کہاں ہے؟ | 191 |
صفت علو اور سائنسی اعتراضات | 193 |
اللہ عزہ و جل کے وجود کا ہر جگہ ہونا | 197 |
مذہب اور سائنس میں اختلاف | 201 |
مصادر و مراجع | 206 |