اردو تنقید کا ارتقا

اردو تنقید کا ارتقا

 

مصنف : ڈاکٹر عبادت بریلوی

 

صفحات: 499

لفظ ’’ تنقید ‘‘ نقدسے مشتق ہے جس کے معنیٰ جانچنا ، کھوج ، پر کھ، کھرے کھوٹے کی پہچان ، محاسن و معائب میں فرق کرنے کے ہیں۔ اصطلاح ادب میں کسی فن پارے یا تخلیق کی خوبیوں اور خامیوں کو بیان کرتے ہوئے ادب میں اُس کا مقام تعین کرنا تنقید کہلاتا ہے ۔ زندگی کے تغیر و تبدل کے زیر اثر ادب میں رونما ہونے والے مسائل اور تبدیلیوں کو دیکھنا تنقید کے لئے لازمی ہے۔دراصل کسی ادب پارے کی تخلیق کے ساتھ ہی تنقیدی عمل بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ کوئی شاعر نظم یا غزل لکھنے کا ارادہ کرے تو اس کا تنقیدی شعور اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور وہ اشعار کو کانٹ چھانٹ کے اور اُس کے نوک پلک درست کرکے تسلی بخش انداز میں تخلیق کرتا ہے۔ زندگی ہر وقت رواں دواں ہے۔ اس میں ہر لمحہ ایک نئے نظریے اور نئی فکر کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے ناقص اور بہتر کی تمیز کے لئے تنقید ضروری ہے ۔ تنقیدی شعور کے بغیر نہ تو اعلیٰ ادب کے تخلیق ہوسکتی ہے۔اور نہ فنی تخلیق کی قدروں کاتعین ممکن ہے۔ اس لئے اعلیٰ ادب کی پرکھ کے لئے تنقید لازمی ہے ‘‘ابتدائے آفرینش سے انسان میں تنقیدی شعور پایا جاتا تھا۔ ابتداء میں اس کے نقوش دھندلے تھے۔ جب انسانیات نے ترقی کی اور طرح طرح کے علوم سامنے آئے تو تنقید کی مختلف جہات سامنے آئیں۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ ادب کی پرکھ کے انداز بھی بدلے۔ اُردو میں تنقید کے ابتدائی نقوش تذکروں میں ملتے ہیں۔ جس میں شاعر کے مختصر حالات زندگی اور نقاد کی پسند سے کلام کا انتخاب شامل کیا جاتا تھا۔ اُردو تنقید کی کسوٹی پر یہ تذکرے کھرے نہیں اُتر تے لیکن چونکہ یہ ہماری تنقید کے اولین نقش ہیں۔ اس لئے ادب میں ان کی اہمیت ہے۔ا لطاف حسین حالیؔ مقدمہ شعر و شاعری میں پیش کردہ اپنے تنقیدی خیالات کے سبب جدید اُردو تنقید نگاری کے بانی ہیں ۔ حالیؔ نے تنقید کی جو راہ نکالی اس پر آگے چل کر اُردو تنقید نے طویل فاصلہ طئے کیا۔ حالیؔ کے بعد اُردو کے نقادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ جن میں اہم نام شبلیؔ ، عبدالحق ، نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری ، آل احمد سرور، احتشام حسین ، کلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری،‘ خورشید الاسلام ، محمد حسن ، احسن فاروقی ، وزیر آغا، قمر رئیس ‘ سلیم احمد، مغنی تبسم ، سلیمان ، اطہر جاوید وغیرہ شامل ہیں، قاری اور نقاد کی پسند کے اعتبار سے جب تخلیق کو قبول یا رد کیا جانے لگاتو ادب میں تنقید کے دبستان وجود میں آئے۔ تقابلی تنقید میں دو فن پاروں کا باہمی تقابل کیا جاتا ہے اور اُن میں یکساں خصوصیات تلاش کی جاتی ہیں۔ تنقید کا تعلق تحقیق اور تخلیق سے بھی ہے۔ تینوں میں فضیلت کا معاملہ زیر بحث رہتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تحقیق کے بغیر تنقید ممکن نہیں۔ اور تنقید کے لئے تخلیق ضروری ہے۔ اچھی تخلیق کے لئے سلجھے ہوئے تنقیدی شعور کی ضرورت ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اردو تنقِید کا اِرتِقاء‘‘ ڈاکٹر عبادت علی بریلوی کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں تنقیدی ارتقاء کو تحقیقی زاویہ کی نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اردو تنقید کا ارتقاء حالات واقعات اور فضاء وماحول کی پیدا وارہے کیونکہ نہ صرف تنقید بلکہ ادب کا ہر شعبہ حالات واقعات ہی کے سانچے میں ڈھلتا ہے او رحالات واقعات کو اپنے سانچے مین ڈھالتابھی ہے ۔اردو تنقید کوبھی حالات واقعات ہی نے پیدا کیا۔بدلتے ہوئے حالات ہی کے سہارے وہ آگے بڑھتی گئی او رخود اس نے حالات کو بدلابھی اور آگے بھی بڑھایا۔اردو تنقید کےارتقاء کو پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھاگیاہے کہ مختلف تنقیدی نظریات اور مختلف تنقیدی معیار جو مختلف اوقات میں قائم ہوتے رہے ان کا ترکرہ گیا ہے پھر ان نظریات کی روشنی میں جو تنقید ہوئی اس کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس کتاب کے پہلا ایڈیشن 1949ء میں شائع ہوا اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر مختلف جامعات نے اسے اپنے نصاب میں شامل کرلیا ۔

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
10.3 MB ڈاؤن لوڈ سائز

You might also like