تاریخ و تعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی
تاریخ و تعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی
مصنف : حافظ اسعد اعظمی
صفحات: 260
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی وبیرونی صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ۔یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ۔اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ،ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ زیرنظر کتاب ’’ تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی ‘‘ دہلی کی اس عظیم الشان معیا ری درس گاہ کے تعارف پر مشتمل ہے کہ جس سے پاک وہند کے بے شمار جید علماء نے فیض پایا ۔مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کو شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے 1921ء میں قائم کیا کہ جس کی صرف ستائیس سالہ مختصر مدت کارکردگی میں مدارس کے اندر کوئی دوسر ی مثال نہیں ۔مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی او ر مولانا احمدللہ پرتاب گڑھی وغیرہ اس مدرسہ کے اولین اساتذہ اور محدث العصر حافظ عبداللہ روپڑی اس کے اولین ممتحن اورمدیر تعلیم مقررہوئے او ر اس مدرسہ کے آخری وجودقیام ِپاکستان تک اس منصب پر فائز رہے ۔ مدرسے کے مہتم تعلیمی معاملات میں موصوف پر ہی اعتماد کرتے او ران کی بات اور فیصلے کو حرف آخر میں سمجھتے تھے (لیکن ناجانے کیوں صاحب کتاب نے حافظ عبد اللہ روپڑی ا ور ان کےخاندان کی مدرسہ کے لیے تعلیمی خدمات کو بطور خاص اہتمام سے بیان کیوں نہیں کیا ) 1947ء تک یہ مدرسہ قائم رہا ۔ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد پیش آنے والے حوادث وفسادات کی وجہ سے یہ مدرسہ بند ہوگیا ۔ شیخ عطاء الرحمن کے صاحبزادے شیخ عبدالوہاب اور ان کاخاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہوگیا۔کتاب کے مرتب شیخ اسعد اعظمی ﷾ نے اس کتاب میں مدرسہ کی تعمیر،اس کے قواعد وضوابط، نصاب ِتعلیم، نظام امتحان، اساتذہ ، فاضلین اور مدرسہ کے متعلق علماء کے تاثرات اور بانیانِ مدرسہ کے حالات واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہےجوکہ قابل مطالعہ ہیں ۔ مدرسہ کے بانی شیخ حاجی عبد الرحمن انتہائی سخی اور فیاض انسان تھے روزانہ شام کو مدرسہ آتے .. طلباء کے لیے سیر وتفریح او ر ہرجمعہ کو مدرسہ کے اساتذہ کی دعوت کا خاص اہتمام کرتے لیکن مدرسہ کے نظم و نسق کے معاملہ بڑے سخت اور اصولوں کے پابند تھے ۔مدرسہ کے نظم وضبط کی خلاف ورزی اور کتاہی کرنے والے طلباء سے ناراض ہوتے ۔مدرسہ کے قیام کےایک سال بعد ہی وفات پاگئے ۔ان کے بعد شیخ عطاء الرحمن نے مدرسہ کا انتظام سنبھالہ ۔یہ اگرچہ بذات خود عالمِ دین نہ تھے مگر انہیں علم اور علماء سے گہرا قلبی تعلق تھا ۔ ہر روز ڈیڑھ میل کا سفر طے کر کے نمازِ فجر سے قبل مدرسہ میں آتے طلباء کو نماز کے لیے خود اٹھاتے جماعت سے پیچھے رہنے والوں کوسزا دیتے ۔مدرسہ میں طلباء کےلیے تیار ہونے والے کھانے کی خود نگرانی کرتے ۔ کبھی کبھی اچانک کھانا منگوا کر کھانے کا معیار چیک کرتے ۔ دار الحدیث رحمانیہ میں تعلیم وتربیت ،دعوت وتبلیغ کے علاوہ نشر واشاعت کا بھی انتظام تھاجس کے تحت دینی کتب کی اشاعت کے علاوہ ایک ماہوار علمی رسالہ ’’محدث ‘‘بھی شائع ہوتا تھا جس کا آغاز مئی 1933 میں ہوا۔ مدرسہ کا تعلیمی معیار بھی بہت بلند تھاجس میں بنیادی کردار و ہ سالانہ امتحان تھا جوکہ روپڑی خاندان کے سالارِ اول حافظ عبداللہ محدث روپڑی اور مولانا محمدحسین روپڑی (والد گرامی حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) لیا کرتے اور امتحان کی نگرانی خطیبِ ملت حافظ اسماعیل روپڑی اور مناظر اسلام عبد القادر روپڑی کیا کرتے۔اس لیے مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کاخاص علمی تعلق اس امرتسری روپڑی خاندان سےتھا۔ اسی مناسبت سے حافظ عبد الرحمن مدنی ﷾ نے اپنے رفقاء(شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾،مولاناعبدالسلام کیلانی) کی مشاورت سے لاہور میں مدرسہ رحمانیہ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کی جو اب بین الاقوامی طور پر جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے معروف ہے۔ اور 1970 میں مجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کی طرف سے ماہوار علمی رسالہ ’’محدث ‘‘جاری کیا جس کو علمی وفکری حلقوں میں بہت قبول عام حاصل ہوا۔ یہ رسالہ اب بھی جاری وساری ہے ۔ دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی کے بانیان ومنتظمین کی مدرسہ کے طلبا ،اساتذہ، علماء سے شفقت ومحبت اور امور مدرسہ سے وابستگی اور دلچسپی آج کے مدارس کے منتظمین اور مہتمم حضرات کےلیے قابلِ اتباع نمونہ ہے ۔ اللہ دین اسلام کے لیے کام کرنے والے تمام مدارس دینیہ اورعلماء کی حفاظت فرمائے (آمین)
عناوین | صفحہ نمبر | |
عرض مرتب | 9 | |
تاثرات مولانا محمد الاعظمی | 14 | |
تقدیم | 19 | |
بانیان مدرسہ | 25 | |
شیخ عبد الوہاب مدرسہ کے نئے مہتمم | 38 | |
مدرسہ کے قیام کا پس منظر | 45 | |
تاسیس رحمانیہ اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی | 56 | |
مدرسہ کی تعمیر | 63 | |
تعمیر کے وقت احساسات | 64 | |
مدرسہ کی عمارت | 66 | |
افتتاح اور تعلیم سے متعلق اعلانات | 67 | |
مدرسہ کے قواعد و ضوابط | 71 | |
مقاصد | 72 | |
تعلیم اور درجات | 72 | |
امتحانات | 72 | |
انعامات مدرسہ | 73 | |
مدرسین اور ان کے فرائض | 74 | |
مدرسہ کا نصاب تعلیم | 80 | |
تقریر وتحریر کی مشق | 93 | |
مناظرہ کی مشق | 99 | |
امتحانات | 102 | |
کتب خانہ | 112 | |
دعوت و تبلیغ | 117 | |
نشر و اشاعت | 122 | |
طلبہ حقوق اور واجبات | 134 | |
مہتمم صاحب کے دولت خانہ پر طلبہ و اساتذہ کی دعوتیں | 142 | |
فارغین | 173 | |
اساتذہ کرام | 179 | |
مدرسہ کے زائرین | 216 | |
زائرین کے تاثرات | 222 | |
اردو | 222 | |
عربی | 227 | |
منظوم تاثرات | 232 | |
آخری لمحات | 235 | |
دار الحدیث رحمانیہ کی عمارت کا مشاہدہ | 243 |