سوویت یونین کا زوال نظریہ عمل و رد عمل
سوویت یونین کا زوال نظریہ عمل و رد عمل
مصنف : عطاء الرحمن
صفحات: 262
روسی سوشلسٹ ریاستوں کا مجموعہ عام طور پر سوویت اتحاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آئینی اعتبار سے اشتراکی ریاست تھی جو یوریشیا میں 1922ء سے 1991ء تک قائم رہی۔ اس کو بالعموم روس (Russia) بھی کہا جاتا تھا جو غلط ہے۔ روس یعنی رشیا اس اتحاد کی سب سے زیادہ طاقتور ریاست کا نام ہے۔ 1945ء سے لے کر 1991ء تک اس کو امریکہ کے ساتھ دنیا کی ایک عظیم طاقت (Super Power) مانا جاتا تھا۔سوویت اتحاد کو 1917ء کے انقلاب کے دوران بننے والے ریاستی علاقے میں قائم کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جغرافیائی سرحدیں تبدیل ہوتی رہیں، لیکن آخری بڑی ٹوٹ پھوٹ کے بعد، جو بالٹک ریاستوں، مشرقی پولینڈ، مشرقی یورپ کا کچھ حصہ اور کچھ دوسری ریاستوں کے اضافے اور فن لینڈ اور پولینڈ کی علیحدگی کے بعد 1945ء سے لے کر تحلیل تک شاہی دور والے روس جیسی ہی رہیں۔سوویت حکومت اور سیاسی تنظیموں کی نگرانی اور دیکھ بھال کا کام ملک کی واحد سیاسی جماعت، سوویت اتحاد کی کمیونسٹ پارٹی کے پاس رہا۔1956ء تک سوویت سوشلسٹ ریاستوں کی تعداد چار سے بڑھ کر پندرہ ہوگئی ۔1991ء میں سوویت اتحاد تحلیل ہوگیا اور اس کے بعد تمام ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ ان میں سے گیارہ ریاستوں نے مل کر ایک ڈھیلی ڈھالی سا وفاق (Confederation) بنالیا ہے جسے “آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ” کہا جاتا ہے۔ زیرنظر کتاب ’’سویت یونین کا زوال ‘‘ جناب عطاء الرحمٰن صاحب کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب صاحب کتاب نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ،اسلام آباد کی جانب 1991ء میں سوویت یونین کا مطالعاتی دورہ کرنے کےبعد مرتب کی ہے ۔موصوف نےاپنے اس دورے میں روسی پارلیمنٹ کے چند ارکان صحافیوں، کمیونسٹ پارٹی کے اہم اراکین،ماسکو میں مقیم سوویت مسلم علاقوں کے آزاد پسند سرگرم کارکنوں سے ملاقاتیں کیں ۔ نیز ازبکستان کے صدر اسلام کریموف اور تاجکستان کے نائب صدر نذر اللہ دوستوف ، مفتی اعظم تاشقند محمد صادق اور حزب اختلاف کے کئی ایک رہنماؤں ، ادیبوں ، صحافیوں اور علماء سے ملاقاتیں کی اور ان کے انٹرویو بھی کیے اور تاشقند ریڈیو پر تقریربھی کی اور اپنے مشاہدات بیان کیے ۔فاضل مصنف نے وطن واپسی پرسوویت یونین کے ززال کے اسباب اور وسطی ایشیا کے احوال پر اپنے مشاہدات وتاثرات اور تجزیے سپرد قلم کیے یہ کتاب فاضل مصنف کے انہی تاثرات ، مشاہدات کا مجموعہ ہے خاص طور اس میں ان مسلمان علاقوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن پر روس نےوسطی ایشیا کے علاقوں سے بھی بہت پہلے قبضہ کیا اوراُس وقت آزاد نہیں ہوئے تھے بین الاقوامی قانون کی رو سے روسی فیڈریشن کا حصہ تسلیم کیے جاتے تھے اور جہاں آزادی کی تحریکیں روزبروز قوت حاصل کرتی جارہی ہیں ۔اشتراکیت کی ناکامی اور سوویت یونین کے زوال پر یہ کتاب نہ خالصتاً علمی یا موضوعاتی ہے اور نہ محض تاثرات ہی کا مجموعہ ہے اس میں فکری ونظری مباحث اور تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ مصنف کے ذاتی مشاہد پر مبنی خیالات وتاثرات بھی ہیں