مسلمانوں کا بلدیاتی نظام
مصنف : مشتاق اے چوہدری
صفحات: 162
کسی بھی مضبوط جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1959ء میں پہلی بار جنرل ایوب خان کے دور میں بلدیاتی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا گیا۔ جسے بعدازاں 1962 ء کے دستور میں شامل کیا گیا۔ بنیادی جمہوریتوں کے اس نظام پر دس ہزار کی آباد ی پر مشتمل یونین کونسل سب سے نچلے درجے کی مقامی کونسل تھی۔ یونین کونسل کے ارکان میں دس منتخب اور 5 نامزد ہوتے تھے جنہیں بی ڈی ممبر کہا جاتا تھا۔ یونین کونسل کا سربراہ چیئرمین کہلاتا تھا۔ یونین کونسل کے دائرہ کار میں مقامی سطح پر امن و امان کے قیام اور زراعت کی ترقی میں کردار ادا کرنا اور مقامی آبادی کے مختلف مسائل حل کرنا تھے ۔ مقامی منصوبوں کیلئے یونین کونسل ٹیکس عائد کرنے کی مجاز ہوتی تھی ۔ صدر پاکستان کے انتخابات کیلئے یہی ارکان ووٹ ڈالتے تھے ۔ اسی طرح تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں کام کرتےتھے۔ 1969ء میں ایوب خان کی حکومت کی رخصتی کے ساتھ یہ نظام بھی رخصت ہو گیا۔ دوسری بار لوکل گورنمنٹ سسٹم جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں نافذ کیا جس کے مطابق شہری اور دیہی دو طرح کے ادارے وجود میں آئے۔ شہروں میں ٹاؤن کمیٹی، مپونسپل کمیٹی، میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن وجود میں آئیں اور دیہی سطح پر یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے وجود میں آئے۔ ان اداروں کے ارکان کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا جو کہ اپنے میئر یا چیئرمین کا انتخاب کرتے۔ تیسری بار 2001 ء میں بلدیاتی نظام پھر ایک فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نئے انداز میں دیا۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت تین سطح پر مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ضلعی سطح پر ضلع ناظم ضلعی حکومت کا سربراہ بنایا گیا۔ اسی طرح تحصیل ناظم اور یونین کونسل ناظم اپنی اپنی سطح پر سربراہ بنے۔ ڈی سی او کو ضلع ناظم کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا جس کے ماتحت مختلف محکموں کے ای ڈی او، ڈی او اور ڈی ڈی اوز وغیرہ تھے۔ زیر نظر کتاب ’’مسلمانوں کابلدیاتی نظام ‘‘ مشتاق اے چوہدری کی اس موضوع پر اولین کاوش ہے ۔پاکستان میں حکومت خود اختیاری کےتحت جو بلدیاتی نظام چل رہا ہے ۔مصنف نےاس نقطۂ نظر سے مسلمانوں کےبلدیاتی نظام پر اجمالاً بحث کی ہے ۔یہ کتاب بلدیاتی نظام کے موضوع پر متعدد اور مستند مآخذوں کا بہترین ما حاصل اور جامع خلاصہ ہے۔مؤلف نے زیر بحث موضوع پر نہایت اچھے الفاظ میں گفتگو کی ہے اور تاریخی شہادتوں سے یہ ثابت کیا ہ کہ یورپ میں جو آج بلدیاتی نظام کے نہایت اور اعلی نمونے دیکھتے کوملتے ہیں وہ اسلام ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں ۔
عناوین | صفحہ نمبر |
دیباچہ | 7 |
پیش لفظ | 9 |
مقدمہ | 11 |
اسلام اوربلدیاتی نظام کافکری ارتقاء | 19 |
اسلام کابلدیاتی فلسفہ | 26 |
بلدیاتی مالیات | 46 |
مسلمانوں کابلدیاتی نظم ونسق | 60 |
انتظامی پہلو | 63 |
بلدیاتی زندگی میں شہریوں کی شمولیت | 91 |
سماجی ورفاہی پہلو | 92 |
بلدیاتی ملازمین کےحقوق وفرائض | 95 |
چند اسلامی شہروں کاذکر | 108 |
اختتامیہ | 145 |
ضمیمہ | 148 |
کتابیات | 150 |