مباحث علوم القرآن ( ڈاکٹر عثمان )

مباحث علوم القرآن ( ڈاکٹر عثمان )

 

مصنف : ڈاکٹر عثمان احمد

 

صفحات: 325

 

علوم ِالقرآن  سے مراد وہ تمام علوم وفنون ہیں جو قرآن فہمی میں مدد دیتے ہیں  او رجن  کے ذریعے قرآن کو سمجھنا آسان ہوجاتا  ہے ۔ ان علوم میں وحی کی کیفیت ،نزولِ قرآن  کی ابتدا اور تکمیل ، جمع قرآن،تاریخ تدوین قرآن، شانِ نزول ،مکی ومدنی سورتوں کی پہچان ،ناسخ ومنسوخ ، علم قراءات ،محکم ومتشابہ آیات  وغیرہ  ،آعجاز القرآن ، علم تفسیر ،اور اصول  تفسیر  سب شامل ہیں ۔علومِ القرآن  کے مباحث  کی ابتداء عہد نبوی  اور دورِ صحابہ کرام سے  ہو چکی  تھی  تاہم  دوسرے اسلامی علوم کی طرح اس موضوع پربھی مدون کتب لکھنے کا رواج بہت بعد  میں ہوا۔ قرآن کریم  کو سمجھنے اور سمجھانے کے بنیادی اصول اور ضابطے یہی ہیں کہ قرآن کریم کو قرآنی اور نبوی علوم کی روشنی میں ہی سمجھا جائے۔علوم ِقرآن کو    اکثر جامعات و مدارس میں  بطور مادہ پڑھا پڑھایا جاتا ہے اوراس کے متعلق عربی  اردو  زبان میں  بیسیوں کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’مباحث علوم قرآن ‘‘ ڈاکٹر عثمان احمد (اسسٹنٹ پروفیسر شبعہ علوماسلامیہ،جامعہ پنجاب)  کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب اردو میں تحریرکردہ تمام کتب سے اپنے موضوعات ،مواد اور اسلوب کے لحاظ سے منفرد ونمایاں ہے ۔ اس  میں زیادہ تر موضوعات وہ ہیں جن کو اردو کتبِ علوم القرآن میں زیر بحث وتحقیق نہیں لایاگیا مثلاً علم الوقف والابتدا، علم الوجوہ والنظائر،علم التقدیم و التاخیر، اصولِ تاویل وغیرہ۔ فاضل مصنف نے ہرموضوع پر نیا مواد پیش کرنے کی کوشش کی  ہے اور تمام موضوعات کو ایک منطقی ترتیب کے ساتھ مدون کیا ہے ۔

 

عناوین صفحہ نمبر
اسم القرآن 17
لفظ قرآن لغوی تناظر میں 21
اشتقاق کے بارے میں آراء 22
قول اول اور مادۂ اشتقاق سے  متعلق اختلافی اقوال 22
’’جمع ‘‘ کی معنویت کی توجیہات 23
قول دوم اورمادہ اشتقاق سے متعلق اختلافی اقوال 24
نبی ﷺکےاسماء صفاتیہ اور قرآن کے اسماء صفاتیہ میں مماثلت 27
تعریف القرآن 29
تعریف قرآن کے جواز وعدم جواز پر دو موقف 29
غیر قائلین کےاستدلالات 29
قائلین کےاستدلالات 30
تعدد تعریفات کی وجہ 31
تعریفات کی دو اساسی جہات 32
اشاعرہ کی اختیار کردہ تعریف قرآن 32
حنابلہ اور علماء ظواہر کی اختیار کردہ تعریف قرآن 35
معتزلہ کی  اختیار کردہ تعریف قرآن 36
قرآن کی مصدری حیثیت کی جہت سے تعریفات 36
قرآن کی معروف تعریف اوراس کے فواید 38
القرآن لفظاً و معناً کی مباحث 41
موقف اول: القرآن معناً کے استدلالات 41
دلیل اول: سورۃ  الشعراء کی آیت سے استدلال 41
دلیل دوم: احکامات شرعیہ معانی کا نام ہے 43
دلیل سوم: تمام لغات کا توقیفی ہونا 44
دلیل چہارم: قرآن کی روایت بالمعنی کا جواز 46
موقف دوم: القرآن لفظا کے استدلالات 50
دلیل اول : رسول اللہ اور صحابہ کرام کا منزل قرآنی الفاظ کی تلاوت پر مواظبت کرنا 50
دلیل دوم: آیت وَلَوْ جَعَلْناهُ قُرآناً أَعْجَمِيَّا سے استدلال 52
دلیل سوم: قرآن کا اپنی لسان کو عربی قرار دینا 53
دلیل چہارم: مثیل القرآن ہونا از روئے قرآن ناممکن ہے 54
موقف سوم : القرآن لفظاً و معناً جمیعاً کے استدلالات 55
دلیل اول:  فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ () ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سے استدلال 56
دلیل دوم: الفاظ و معانی باہم متحد ہوتے ہیں اور دونوں کلام کا لازمی حصہ ہوتے ہیں 57
سوم : قرآن و ہدایت کا تعلق الفاظ و معانی کے لزوم سے ہے 58
چہارم: اعجاز القرآن کا ظہور نظم و معانی دونوں کے استراک و اجتماع سے ہوتا ہے 59
دلالت قرآن کی قطعیت و ظنیت کی بحث 63
لفظ دلالت لغوی سیاق میں 63
دلالت کے اصطلاحی معنی 65
دلالت قطعی و ظنی کی تعریف 66
موقف اول: دلالت قرآن میں قطعیت و ظنیت کااجتماع 66
موقف اول کے دلایل 67
1۔قرآن میں قطعیت و ظنیت کے جمع پر امت کا اتفاق 67
2۔ اہل لغت کا اتفاق کہ الفاظ کی دلالت قطعی بھی ہوتی اور ظنی بھی 68
3۔قرآنی نصوص کی تعدد معنویت اور علماء امت کے تفسیری اختلافات 70
موقف دوم: قرآن مطلقاً ظنی الدلالہ ہے 70
1۔ معانی کی تفہیم کا دارو مدار انسانی تفہیم و اجتہاد پر ہے جو قطعی نہیں 71
2۔ زبان و بیان میں مجاز و استعارہ اور الفاظ مشترکہ کااستعمال قطعیت کے خلاف ہے 71
3۔ متکلم کی قلبی مراد واحد پر مطلع ہونے کا ذریعہ صرف کلام ہےاور  کلام محتمل الوجوہات ہوتے ہیں 72
موقف دوم کے علمی نتائج 73
1۔ سیاق نزولی بحیثیت اصل التفسیر 73
2۔ کلام کی موضوعیت 73
3۔ قرآن کی معنویت کی آفاقیت و عمومیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے 73
4۔ ہر ظنی اصول سے نسخ و تخصیص 74
موقف سوم : قرآن مطلقاً قطعی الدلالہ ہے 74
1۔متکلم کے کلام کا مقصود صرف ایک معنی کا ابلاغ ہوتا ہے 74
2۔ تاویل واحد پر قرآنی دلیل 75
3۔ رسول اللہﷺ سے منقول تفسیرات میں تاویلات متعددہ کہیں بھی منقول نہیں 76
موقف سوم کے علمی نتائج 76
1۔مفسرین کی کثرت تاویلات کا ابطال 76
2۔ قرآن مجید میں احتمالات معانی میں تعیین کے حتمی اصول 77
3۔ اصول لغت تفسیر کا اصول ثالث 78
اصول تاویل 79
اصول اول: کلام میں اصل حمل علی الظاہر ہے 79
اصول دوم : کلام محتمل التاویل ہو 81
اصول سوم : مؤول الیہ معنی پر محمول کرنے کا احتمال و امکان موجود ہو 83
اصول چہارم: سیاق کلام، سیاق نزول، سیاق لغوی اور دیگر نصوص اس تاویل کے نقیض نہ ہوں 84
اصول پنجم: تاویل کے لیے دلیل صحیح موجود ہو 84
مواقع و موجبات تاویل 85
ضرورت القرآن 87
صدیوں سے انسانوں کے  معاشروں میں تعلیم و تعلم اور درسگاہوں کا نظام 88
انسانی معاشروں میں قوانین کی موجودگی اور ان کا نفاذ 88
حواس کا استدلالی مقام 89
1۔حسی معلومات ناقص ہوتی ہیں 89
2۔ حسی معلومات متناقض ہوتی ہیں 90
3۔حسی معلومات غلط ہوتی ہیں 90
4۔حسیات انسان کا خاصہ نہیں ۔ جانور بھی حس میں شریک ہیں 90
5۔صداقت کی معروضیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے 91
6۔ماوراء حس چیزوں کا وجود او رحسیات کی ناکامی 91
7۔حواس کی معلومات خود حواس میں محفوظ نہیں رہ سکتیں 92
عقل کی برہانی حیثیت کی تعیین 92
1۔ عقل حواس خمسہ کی محتاج ہے 93
2۔عقل وہم کا شکار ہوتی ہیں 94
3۔ عقول میں تفاوت ہے 94
4۔ عقل جذبات کا شکار ہو جاتی ہے 95
5۔ عقل کی ناکامی پر تاریخ عقلیات و فلسفہ گواہ ہے 95
وحی کا استدلالی مقام 95
دلیل تاریخی 96
دلیل اخبار غیبی 96
دلیل تخلیقی 98
دلیل اعجازی 99
موضوع القرآن 101
ہدایت انسانی۔ موضوع قرآن 101
الف۔ قرآن نے ہدایت کی حقیقت کو ظاہری و باطنی صالح اعمال کے تذکرہ کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ 103
ب۔ قرآن نے ان معتقدات و اعمال کا تصریحاً ذکر کیا جو ہدایت دشمنی اور گمراہی ہیں 104
ج۔قرآن نے ان مثالی شخصیات و اقوام کو بطور مثال و نمونہ پیش کیا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں 105
د۔قرآن نےان مبغوض و معذب افراد و اقوام کا تذکرہ تفصیلاً کیا ہے جو گم راہ تھے 107
ھ۔ قرآن نے اللہ کے انعام یافتہ افراد اور قوموں کے معاشی و سماجی مقام اور اللہ کی مبغوض و معذب قوموں کے معاشی و تمدنی حالات کا تفصیلاً ذکرکیا ہے 109
تفسیر بالماثور و تفسیر بالرائے 117
تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے میں جوہری فرق کیا ہے ؟ 120
قرآن میں صرف ، تفسیر بالرائے ’ کو ہی قرآن فہمی قرار دیا گیا ہے 122
رائے اور اثر بالمقابل نہیں 123
ایک آیت کی متعدد تفسیرات بیان کرنا نبی ﷺاور صحابہ کا منہج نہ تھا 124
امام غزالی تفسیر بالرائے سے متعلق نفیس بحث 125
تعریف علوم القرآن 128
لفظ علم کی لغوی و لسانی تفہیم 128
علم کی اصطلاحی تعریف 130
علوم القرآن کی  اصطلاحی تعریف 132
علوم القرآن اورتفسیر  قرآن میں فرق 136
علوم القرآن اور اصول تفسیر میں فرق 138
دلالۃ الاقتران اور تفسیر قرآن 141
اقتران : لغت کی رو سے 142
دلالۃ الاقتران کی حجیت اور عدم حجیت ۔ قائلین و مانعین کے دلایل 144
دلالۃالاقتران کی اقسام 146
دلالۃ الاقتران سے تفسیر قرآن کی چند امثلہ 147
قرآن کی سائنسی تعبیرات و تشریحات 156
قرآن اور سائنس ۔ دو متغایر تصورات علم 167
دینی احکامات کی سائنسی حکمتیں 174
غیر سائنسی کو سائنسی بنا کر پیش کرنے کا مغالطہ 177
سائنس کیا ہے ؟ 178
برصغیر میں سائنسی تفسیر۔ تاریخ و ارتقاء 182
نسخ فی القرآن اور اس کے مباحث 186
نسخ متقدمین کی اصطلاح میں 187
مطلق کی تقیید پر نسخ کا اطلاق 187
استثناء پر نسخ کا اطلاق 188
توضیح و تبیین پر نسخ کا اطلاق 189
تخصیص پر نسخ کااطلاق 190
انتہائے مدت عمل کا بیان 191
کلام کے متبادر معانی کو غیر متبادر معانی کی طرف پھیرنا 191
قید اتفاقی کا بیان 191
منصوص اور بظاہر قیاس کئے ہوئے مسئلہ کے درمیان فرق 192
زمانہ جاہلیت کی عادت کا ازالہ 193
سابقہ شریعت کا ازالہ 193
متاخرین علماء کے ہاں نسخ کی اصطلاح تعریف 194
متکلمین کی نسخ کی اصطلاحی تعریف 194
انواع نسخ باعتبار بدل 196
انواع نسخ باعتبار حکم و تلاوت 197
محل عدم نسخ  و نسخ 197
قرآن میں  منسوخی آیات کی عدم موجودگی کا موقف۔ استدلالات کا تجزیہ اورتیسرا موقف 199
قرآن و حدیث منسوخ آیات کی عدم تصریح 200
قرآن میں موجود ناسخ و منسوخ سے متعلق متعارض و مضطرب روایات 203
اختلاف تعریفات  واصول اور اس کے نتائج 205
4۔تعارض حقیقی کا اثبات 206
اصول تاویل اور اس کا اطلاق 209
قرآن کی بیان کردہ نسخ کی صورتیں اور قرآن میں منسوخ آیات کی موجودگی کا عدم امکان 211
منسوخ آیات کی موجودکی قرآنی آیات کا معطل وغیر عملی ہونا 212
القرآن میں  منسوخ آیات کی عدم موجودگی ۔ برصغیر کے علماء کا موقف 215
النسخ فی القرآن پر اجماع کے دعویٰ کا جائزہ 216
قرآن  میں منسوخ آیات کی موجودگی کے بارے میں میرا موقف 217
علم المناسبات 221
علم المناسبات کی لغوی و اصطلاحی تفہیمات 221
علم المناسبات کا آغاز و تطور 223
علم المناسبات سے متعلق علماء کے تین موافق و استدلالات 224
مناسبت آیات و سؤر کی صورتیں 235
مناسبت آیات و سؤر کی داخلی صورتیں 235
مناسبت آیات و سؤر کی خارجی صورتین 235
وجوہ مناسبات 239
التنظیر 239
المضادۃ 240
الانتقال 242
فراہی مکتب فکر اور عمود سورت کا نظریہ 244
نقد  ونظر 249
مولانا فراہی ﷫اور مولانا اصلاحی ﷫کے بقول امت کے تفسیری اختلافات نظم قرآن کو مدنظر نہ رکھنے کےباعث ہیں 249
وحدت تاویل و معانی بذریعہ وحدت نظم 250
نظام سؤر میں تعداد کا امکان 251
وحدت عمود کے باوصف تفسیری اختلافات 252
اختلافات تفسیر یہ کے خاتمہ کا دعویٰ اور نظم قرآن سے احتیاج ثبوت 253
علم الاعتبار ( تفسیر اشاری) 255
اعتبار کی لغوی تحقیق 255
علم الاعتبار کی اصطلاحی تعریف 256
علم تفسیر اور علم الاعتبار 257
تفسیر باطل اور اعتبار میں فرق 258
علم الاعتبار کے جواز کے لیے  دلیل شرعی 259
مجاز اور اعتبار میں فرق 260
کنایہ اور اعتبار میں فرق 262
اشارۃ النص اور اعتبار میں فرق 263
قیاس اور اعتبار میں فرق 264
قرآن اور علم الاعتبار کی چار جہتیں 265
1۔بیان معانی قرآن المعروف بہ تفسیر اشاری 266
2۔ تعبیر خواب 268
3۔ رقیہ و وظائف 270
4۔تفاول اوراستخارہ 271
علم الوجوہ والنظائر 273
وجوہ نظائر کی لغوی تفہیم 273
وجوہ نظائر کی اصطلاحی تفہیم 274
علامہ ابن جوزی کا موقف 274
علامہ الزرکشی ﷫اور علامہ السیوطی ﷫کا موقف 276
وجوہ اور مشترک کےدرمیان فرق 277
متعدد الوجوہ قرآن الفاظ کی امثلہ 278
علم وجوہ و نظائر کے تفسیری اثرات 283
تفسیر تنوع 283
مسایل فقہیہ میں توسع 284
تفسیر قرآن بالقرآن میں استفادہ 285
مسایل کلامیہ میں اختلاف 286
تفسیری تکلفات کا اظہار 288
علم الوقف والابتداء 289
وقف کا لغوی و اصطلاحی مفہوم 289
ابتدا کا لغوی و اصطلاحی مفہوم 290
علم وقف و ابتدا کی اصطلاحی تعریف 291
علم وقف وابتدا اورعلم تجوید میں فرق 291
علم وقف و ابتدا پر تصانیف 292
وقف و ابتدا اور تفسیر قرآن 293
معنوی تعدد و تنوع 293
شامل و غیر شامل افراد سے متعلق تفسیری اختلاف 296
وقف وابتدا اور مسایل کلامیہ میں اختلاف 299
مسایل فقہیہ اور وقف وابتدا کے باعث اختلاف 301
علم التقدیم و التاخیر فی القرآن 311
تقدیم وتاخیر سے قرآن میں تنوع معانی کی امثلہ 313
مسایل فقہیہ میں دلالت تقدیم و تاخیر کے باعث اختلاف کے نظائر 315
تقدیم و تاخیر تسلیم کرنے سے تفسیر قرآن میں جمہور کی مخالفت کے شواہد 317
وجوہ قراءات میں تقدیم و تاخیر اور معنوی تنوع کی امثلہ 319
تقدیم و تاخیر سے خفاء معانی قرآن کی امثلہ 322

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
17.1 MB ڈاؤن لوڈ سائز

You might also like