جدید تحریک نسواں اور اسلام
مصنف : پروفیسر ثریا بتول علوی
صفحات: 496
عورت چھپانے کی چیز ہے سو عورت پردہ اور گھر کی چار دیواری تک محصور ہو گی تو اس کی عزت و آبرو محفوظ ،معیار ووقار برقرار رہے گا اور دنیا میں معزز اور آخرت میں محترم ٹھہرے گی۔کتاب وسنت کے بے شمار دلائل عورتوں کو گھروں میں ٹکے رہنے ،اجنبی مردوں سے عدم اختلاط اور غیر محرموں سے پردہ و حجاب کی پر زور تاکید کرتے ہیں اور جاہلی بناؤ وسنگھار ،بے حجابی و بے پردگی اور مخلوط مجالس کی سخت ممانعت کرتے ہیں ۔نیز فحاشی و عریانی ،بے حیائی و بے پردگی،بدکاری و زنا کاری اور بے حیائی و بے غیرتی کے خفیہ و علانیہ جتنے بھی چور دروازے ہیں اسلام نے یہ تمام راستے مسدود کردیے ہیں ۔
اللہ تبارک اسمہ وتعالی ٰ انسانوں کو با عزت و باوقار دیکھنا پسند کرتے ہیں۔اس لیے محرم و غیر محرم رشتہ داروں کی تقسیم ،اجنبی مردوں سے عدم اختلاط ،بامر مجبوری غیر محرم مردوں سے درشت لہجے میں گفتگو اور چار دیواری کا حصارعورت کی عصمت و ناموس کی حفاظت کے مضبوط حفاظتی حصار مقرر کیے ہیں ۔ان پر عمل پیرا ہو کر عورت پرسکون و پرکشش زندگی گزار سکتی ہے۔لیکن یہ عظیم سانحہ ہے کہ اسلامی معیار ی تعلیمات کو قدامت پسندی اور فرسودہ تہذیب کا نام دیکر اور آزادی نسواں کے پرکشش اور رنگین نعرے کی آڑ میں عورتوں کو گھروں سے نکالنے ،مخلوط تقاریب و مجالس میں لتاڑنے ،مساوات مردوزن کی آڑ میں پردہ نشینوں کو ملازمتوں میں دھکیلنے اور آئیڈیل کی تلاش میں عورت کو بے توقیر و غیر معیاری کرنے کی مغربی مہم نے اہل اسلام سے دینی روحانیت ،مذہبی غیرت اور ملی حمیت کا جنازہ نکال دیا ہے ۔پھر اس ننگی مغربی ثقافتی یلغار کے سامنے مضبوط بند ھ باندھنے کے بجائے مسلم حکمران ،طبقہ اشرافیہ ،صحافی و دانشور اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اس زہر ناک گندگی ، جنسی آوارگی کو پروان چڑھانے اور شیطانی مقاصد کی تعمیل میں پیش پیش ہیں۔حق تو یہ تھا کہ اہل یورپ کے آزادی نسواں کے نام پر جنسی آوارگی اور عورت کی بے توقیری کے شرمناک وار کا کتاب وسنت کے دلائل سے پوری مردانگی سے توڑ کیا جاتا اور اسلام کے حقوق مردو زن کے فطرت کے عین موافق ہونے کے سبب اسے منوانے کی سخت سر توڑ کوشش کی جاتی۔لیکن ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ‘‘کے مصداق یہاں تو آوے کا آوا ہی مغرب کی آوارگی کا معترف و شائق ہے ۔
ایسے سنگین حالات میں معاشرتی استحکام ،مردوزن کی عصمت و ناموس کی حفاظت اور بے حیائی و جنسی آوارگی کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ مسلم دانشور ،علماء کرام اور مذہبی تنظیموں کے سربراہان و کار پردا زان پورا سر درد لیکر فحاشی و عریانی کے اس طوفان بدتمیزی کی روک تھام کریں اور شریعت اسلامیہ میں مردو زن کے حقوق و دائرہ کار کی حقانیت کا پرچار کریں ۔مغربی سفارتی یلغار اور فحاشی و عریانی کے منہ زور سیلاب کی روک تھام کے لیے زیر تبصرہ کتاب ایک اہم کاوش ہے ۔لیکن اسے بارش کا پہلا قطرہ خیال کیا جائے ابھی منزل تک پہنچنے کے لیے بڑی دشوار گزار اور پر پیچ مسافتیں ہیں ۔
عناوین | صفحہ نمبر | |
عرش ناشر |
6 |
|
تقدیم |
|
7 |
پیش لفظ |
|
14 |
مغرب کا نظریہ مساوات مردو زن |
|
19 |
موجودہ مسلم معاشرے اور نظریہ مساوات مردوزن |
|
41 |
مساوات مردوزن کا اسلامی تصور |
|
61 |
گھریلو نظم میں مرد کی سربراہی |
|
81 |
عورت کا مقصد وجود |
|
99 |
اسلام اور پاک دامنی |
|
113 |
ستر و حجاب کے احکام |
|
139 |
عورت اور معاشی مسائل |
|
177 |
ولایت نکاح کا مسئلہ |
|
191 |
مہر |
|
215 |
تعداد ازواج |
|
225 |
مسئلہ طلاق |
|
237 |
خلع کا حق |
|
263 |
اسلام میں عورت کی نصف شہادت |
|
275 |
اسلام میں عورت کی نصف وراثت |
|
299 |
اسلام میں عورت کی نصف دیت |
|
307 |
اسلام اور عورت کی سربراہی |
|
321 |
صرف اسلام ہی طبقہ نسواں کا محسن ہے |
|
369 |
قانون الہی نہ ماننے والے مسلمان کا انجام |
|
391 |
موجودہ مسلمان عورت کی زبوں حالی اور اصلاح احوال |
|
399 |
تذکرہ چند اولو العزم با کمال خواتین |
|
417 |
جدید مغربی نو مسلم خواتین کے اسلام کے بارے میں تاثرات |
|
435 |
اسلام اور ملک یمین |
|
451 |
غیرت کا قتل اور اسلامی احکام |
|
457 |
بیجنگ پلس فائیو کانفرنس |
|
479 |
کتابیات |
|
493 |