مذہب سے متعلق اپنے تنقیدی خیالات کے باوجود میں کچھ عرصے سے قرآن پاک پر کام کررہا ہوں۔ خیالات اپنی جگہ، تحقیقی کام اپنی جگہ۔ قرآن الہامی اور مذہبی کتاب ہونے کے علاوہ قدیم ادب کا بھی شاہکار ہے اور صرف مسلمان نہیں، مذہب، ادب اور سماجی علوم کے غیر مسلم ماہرین کی بھی دلچسپی کا باعث ہے۔
میرے پاس قرآن کے متعدد نسخے ذاتی کتب خانے میں ہیں اور ان سے کہیں زیادہ نادر نمونے پی ڈی ایف کی صورت میں جمع کرلیے ہیں۔ کچھ باآسانی انٹرنیٹ پر دستیاب تھے اور کچھ امریکا، کینیڈا اور یورپ کی یونیورسٹیوں اور لائبریریوں سے رابطہ اور درخواست کرکے حاصل کیے ہیں۔ کوئی شے مفت نہیں ملتی، کم از کم وقت تو صرف کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن بعض اوقات برقی نسخے حاصل کرنے کےلیے ڈالر بھی خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
میں نے کئی ماہ پہلے قرآن کے پہلے اردو ترجمے کا اصل مخطوطہ پیش کیا تھا جو کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی میں موجود ہے۔ وہ ترجمہ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالقادر نے کیا تھا اور مخطوطے پر سنہ 1790 درج ہے۔ آج میں دنیا کا پہلا پرنٹڈ قرآن پیش کررہا ہوں جس کی دنیا میں صرف ایک کاپی بچی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی پہلی پرنٹڈ کتاب انجیل تھی جو جرمنی کے گوٹن برگ نے چھاپی۔ یہ 1455 کا واقعہ ہے۔ آج اسے گوٹن برگ بائبل ہی کہا جاتا ہے۔ پہلی پرنٹنگ میں اس کی کم از کم 158 کاپیاں چھاپی گئی تھیں اور 49 کاپیاں آج باقی ہیں۔ میرے پاس اس کی بھی پی ڈی ایف ہے اور وہ بھی کسی دن شئیر کروں گا۔
گوٹن برگ بائبل کے 82 سال بعد 1537 میں ایک اطالوی پرنٹر الیسیندرو پیگانینی نے وینس میں پہلا قرآن چھاپا۔ اس سے پہلے مغربی زبانوں میں قرآن کے ترجمے ہوچکے تھے لیکن صرف عربی میں مکمل چھاپا گیا یہ اولین قرآن تھا۔ پرنٹر کا مقصد اسے سلطنت عثمانیہ میں فروخت کرنا تھا لیکن روایات ہیں کہ یورپ میں موجود کاپیوں کو اس وقت کے پوپ نے اور سلطنت عثمانیہ پہنچنے والی کاپیوں کو خلیفہ نے جلوادیا تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ کسی طرح صرف دو کاپیاں بچ گئی تھیں کیونکہ مختلف کتابوں میں ان کے حوالے دیے جاتے رہے ہیں۔ ہم اب صرف ایک کے بارے میں جانتے ہیں جو وینس میں ایک گرجاگھر کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔
میں اپنے بزرگ علامہ طفیل ہاشمی صاحب سے درخواست کروں گا کہ کسی محقق کو اس نسخے کی طرف متوجہ کریں۔ اس کی ٹائپنگ میں شاید کچھ غلطیاں ہوگئی تھیں۔ اس نسخے کے متن، تاریخ اور احوال پر پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے۔
میں قرآن پاک کے پرانے نسخوں اور دوسری انتہائی اہم کتابوں کی ایک فہرست بنائے بیٹھا ہوں جو جامعات، سرکاری اور نجی کتب خانوں میں پوشیدہ ہیں۔ ایسی ہر کتاب کی نقل کے لیے اوسطا سو ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ہزاروں ڈالر کا یہ منصوبہ مکمل کرنے کی میں ابھی استطاعت نہیں رکھتا لیکن جو بھی مواد میرے پاس ہے، اور جو کچھ مستقبل میں حاصل کرسکوں گا، وہ یہاں پیش کرتا رہوں گا۔(مبشر علی زیدی)