داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا ؟
داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا ؟
مصنف : محمد فاروق رفیع
صفحات: 250
شریعت ِاسلامیہ میں سفید بالوں کو خضاب لگانے کو جائز قرار دیا گیاہے۔بشرطیکہ وہ کالے کے علاوہ کوئی رنگ ہو۔سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ” بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو، یہود جیسے نہ بنو۔”کالے خضاب کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں البتہ مکروہ کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: ”بعض علما نے سیاہ خضاب کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔” (ابن حجر، فتح الباری، دار المعرفہ، بیروت، ١٠/ ٣٥٤) ایک قول حضرت عمر بن الخطابؒ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے۔ (عبد الرحمن مبارک پوری، تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، طبع دیو بند، ٥/ ٣٥٦)۔ متعدد صحابۂ کرام سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے، مثلاً حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت جریر بن عبد اللہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت عقبہ بن عامرؓ، حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ۔ تابعین اور بعد کے مشاہیر میں ابن سیرینؒ، ابو بردہؒ، محمد بن اسحاقؒ صاحب المغازی، ابن ابی عاصمؒ اور ابن الجوزی بھی کالا خضاب استعمال کیا کرتے تھے۔ (تحفۃ الاحوذی، ٥/٣٥٥، علامہ مبارک پوری نے اور بھی بہت سے تابعین و مشاہیر کے نام تحریر کیے ہیں۔ ٥/ ٣٥٧۔ ٣٥٨)زیر نظر کتاب ’’خضاب کی شرعی حیثیت ،کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعید بن علی بن وہف القحطانی کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں خضاب کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے۔