بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل
بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل
مصنف : محمد اعظم
صفحات: 722
اس وقت دنیا میں بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے اور اقوام متحدہ اور اس کے ساتھ دیگر عالمی ادارے ان بین الاقوامی معاہدات کے ذریعہ دنیا کے نظام کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس لیے ہماری آج کی سب سے بڑی علمی و فکری ضرورت یہ ہے کہ دنیا میں رائج الوقت بین الاقوامی معاہدات کا جائزہ لیا جائے اور اسلامی تعلیمات و احکام کے ساتھ ان کا تقابلی مطالعہ کر کے ان کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل اور حکمت عملی طے کی جائے۔ اور بین الاقوامی معاہدات اور رسم و رواج کے حوالہ سے جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارک کیا ہے؟ جناب رسول اکرم صلی الہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی بیشتر رسوم و رواجات کو جاہلی اقدار قرار دے کر مسترد فرما دیا تھا اور حجۃ الوداع کے خطبہ میں یہ تاریخی اعلان کیا تھا کہ”:کل أمر الجاھلية” موضوع تحت قدمی۔’’جاہلیت کی ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔‘‘لیکن کچھ روایات اور رسوم کو باقی بھی رکھا تھا جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں جاہلی اقدار سے معاشرے کو نجات دلانا ضروری ہے وہاں اگر کوئی عرف و تعامل اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہو تو اسے قبول بھی کیا جا سکتا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’ بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل‘‘ محمد اعظم چوھدری صاحب کی ہے۔ جس میں تعارف بین الاقوامی تعلقات، قومی ریاست، ریاستی تنازعات کی اکائیاں، سماجی معاشی و سیاسی تحریکیں، جنگ عظیم اول و دوم، بین الاقوامی معاشرے کی اکائیاں، غیر ملکی امداد اور اقتصادی انضمام، بین الاقوامی دفاعی معاہدات، معاشرے کے مسائل اور پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کو مفصل بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کو عزت ومقام عطا فرمائے۔آمین
عناوین | صفحہ نمبر |
تقریظ | 11 |
تعارف | 12 |
دیباچہ | 13 |
تاثرات | 15 |
تاثرات | 17 |
عرض مصنف | 18 |
تعارف بین الاقوامی تعلقات | 21 |
بین الاقوامی تعلقات کامفہوم | 23 |
بین الاقوامی تعلقات کی اقسام | 23 |
بین الاقوامی تعلقات اورسیاسیات عالم میں فرق | 24 |
داخلی سیاست اورعالمی سیاست میں فرق | 27 |
بین الاقوامی تعلقات کےمطالعے کی اہمیت | 30 |
بین الاقوامی تعلقات کاتاریخی تناظر | 36 |
بین الاقوامی تعلقات کاارتقاءبحیثیت نصابی مضمون | 42 |
بین الاقوامی تعلقات پراثراندازہونےوالےعوامل | 48 |
بین الاقوامی تعلقات کےنظریات | 62 |
قومی ریاست | 73 |
قومی ریاست اوراس کےعناصر | 74 |
قومی ریاستی نظام کاارتقاء | 88 |
قوم پرستی | 98 |
قومی طاقت | 116 |
قومی خارجہ پالیسی | 121 |
ریاستی تنازعات کی اکائیاں | 205 |
ڈملومیسی یاسفارتکاری | 124 |
پروپیگنڈہ | 157 |
توزان طاقت | 165 |
ریاستوں کےمابین تنازعات | 177 |
جنگ | 194 |
سماجی معاشی وسیاسی تحریکیں | 205 |
سامراجیت | 206 |
استعماریت | 218 |
نئی استعماریت | 219 |
غیرجانیداری | 221 |
قانون بین الاقوام | 226 |
جنگ عظیم اول | 237 |
جنگ کاپس منظر | 238 |
جنگ کےفریقین | 243 |
جنگ کےاسباب | 243 |
جنگ کےواقعات | 248 |
امریکی صدولین ےجودہ نکات | 252 |
جنگ کےنتائج | 253 |
معاہدات امن | 255 |
بین الاقوامی تعلقات | 277 |
اجتماعی تحفظ اورتخفیف اسلحہ | 278 |
مسئلہ تاوان اورعالمی معاشی بحران | 295 |
اسپین کی خانہ جنگی | 309 |
منچوریہ کی جنگ | 316 |
عرب دنیا | 3422 |
معاہدہ جنیوا | 329 |
معاہدہ لوکارنو | 331 |
معاہدہ کیلوگ بریان | 335 |
برلن روم ٹوکیومحور | 339 |
جنگ عظیم دوم | 343 |
جنگ کےفریقن | 344 |
جنگ کےاسباب | 344 |
جنگ کےواقعات | 348 |
جنگ کےنتائج | 354 |
معاہدات امن | 355 |
بین الاقوامی معاشرے کی اکائیاں | 367 |
مجلس اقوام | 368 |
مجلس اقوام کی کمیابیاں | 375 |