وقائع دلپذیر بادشاہ بیگم اودھ Badshah Begum Oudh از عبالاحد رابط
وقائع دلپذیر
بادشاہ بیگم اودھ
Badshah Begum Oudh
از عبالاحد رابط
ڈاؤن لوڈ آرکائیو
ڈاؤن لوڈ جمپ شیئر
اپنے موضوع پر ایک بہترین کتاب جو کہ شیعہ سلطنت و نوابانِ اودھ اور بادشاہ بیگم کے تاریخی حالات اور مذہبی بدعتوں سے متعلق نہایت دلچسپ معلومات فراہم کرتی ہے۔ کتاب کی سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ اس کے بیشتر واقعات مؤلف مولوی عبدالاحد رابط کے خود چشم دیدہ ہیں۔ مؤلف مذکور جو نصیر الدین حیدر شاہِ اودھ کے زمانے میں پورے دس سال یعنی ١٨٢٧ عیسوی سے ١٨٣٧ عیسوی تک لکھنؤ رزیڈنسی کے دفتر میں سر رشتہ داری کے عہدے پر مامور رہے تھے اور اس تعلق سے انہیں اس کتاب میں بیان کردہ تمام واقعات و حالات سے کماحقہ واقفیت تھی جس کو انہوں نے فارسی زبان میں “وقائع دلپذیر” کے نام سے رقم کیا۔ کتاب کی تالیف کے پورے سو سال بعد ١٩٣٧ عیسوی میں جناب محمد تقی احمد ایم اے ایل ٹی کو مہاراجہ بلرام پور کے ذاتی کتب خانے میں جب اس کا فارسی مخطوطہ ملا تو انہوں نے اسکو انگریزی میں ترجمہ کرکے “تاریخ بادشاہ بیگم” کے نام سے شائع کیا۔ بعد میں اس کتاب پر ایک مفصل مقدمہ اور کچھ اضافہ جات کرکے علامہ محمود احمد عباسی رحمہ اللہ نے اسکو “بادشاہ بیگم اودھ” کے نام سے اپنے مکتبہ مکتبۂ محمود سے شائع کیا۔ محمود احمد عباسی اگر اس کتاب کو شائع نہ کرتے تو غالباً یہ اب تک ناپید ہوچکی ہوتی۔ محمود احمد عباسی کے انتقال کے بعد الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ اس کتاب کو شائع کررہا ہے تاہم وہاں بھی اب صرف پرانے چھپے نسخے فروخت ہورہے ہیں، مزید چھپائی اس کتاب کی بند ہوچکی ہے۔
کتاب اپنے موضوع پر نہ صرف کافی مدلل ہے بلکہ نہایت دلچسپ بھی ہے جو کہ لکھنؤ اور اودھ میں شیعہ سلطنت کے قیام و حالات، شیعہ مذہب کے تشبیہی عناصر کی مادی کیفیات، بادشاہ بیگم کی مذہبی بدعتوں، اچھوتیوں یعنی اماموں کی فرضی بیبیوں کے واقعات، شیعہ بادشاہ نصیر الدین حیدر کا فرضی زچہ بن کر اماموں کو جننا، چھٹی نہا کر زنانہ لباس میں باہر نکلنا، اماموں کے مصنوعی جنازے، فرضی مقبرے، نوابوں کی محلاتی زندگی، متاعی عورتوں کی بہتات، فروغِ شیعیت کے لئے حکومتی کوششیں، سنّی علماء کی جلاوطنی، جائدادوں کی ضبطی، شیعہ ہوجانے پر جائدادوں کی بحالی، نوابانِ اودھ کی عیاشانہ معاشرت، اردو شاعری پر لکھنوی اور شیعی اثر جیسے مضامین پر ہم عصر مؤلف کی شہادتیں پیش کرتی ہے۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم اسکی طباعت کافی پرانی تھی۔ سو کوشش ہے کہ اسکو نئے خط کے ساتھ ازسرنو کمپوز کرواکر حارث پبلی کیشنز سے شائع کیا گیا ہے۔