Ayat Rajam Torat Ki Hain, Quran Ki Nai By Abu Aala Maududi آیت رجم توریت کی ہیں، قران کی نہیں
Ayat Rajam Torat Ki Hain, Quran Ki Nai
آیت رجم توریت کی ہیں، قران کی نہیں
By Abu Aala Maududi
(احکام القرآن للجصاص، جلد اول، صفحہ ۶۷)
(بخاری۔ رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت)
(موطا امام مالک، باب: الزانی المحصن یرجم)
احکام القرآن سے نسخ کا جو نظریہ میں نے نقل کیا ہے، وہ ذہن کو الجھن میں ضرور ڈالتا ہے کیوں کہ جس آیت کا حکم باقی ہو، اس کے منسوخ التلاوۃ قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم جناب رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی اور وہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن وہ قرآن کے مجموعہ میں نہیں پائی جاتی۔ کیوں؟ یہ ایک ناقابل حل معمہ ہے جس نے مجھے بے حد پریشان کر رکھا ہے۔ امید ہے کہ آپ میری ان قرآنی الجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ براہ عنایت ذرا تفصیل سے روشنی ڈالئے۔ اگر میرے دلائل آپ کو اپیل کریں تو رسائل و مسائل کی مندرجہ عبارت کو آپ بدل دیں‘‘۔
(ملاحظہ ہو مسند احمد، مسلم اور ابوداؤد)
یہ کہنا کہ (زانیِ محصن کے حق میں سورہ نور کی آیت الزانی والزانیۃ فاجلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ کے حکم کو) منسوخ کرنے والی چیز سنت قطعیہ ہے، زیادہ صحیح ہے، بہ نسبت اس کے کہ آیت مذکورہ (الشیخ والشیخۃ) کو اس کا ناسخ قرار دیا جائے۔ اس لئے کہ یہ بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہے کہ یہ آیت قرآن میں نازل ہوئی تھی پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی۔ اگر حضرت عمرؓ نے خطبہ میں اس کا ذکر کیا اور لوگ خاموش رہے (جیسا کہ روایات میں بتایا جاتا ہے) تو یہ اس کا قطعی ثبوت نہیں ہے۔ کیوں کہ اجماعِ سکوتی کا حجت ہونا مختلف فیہ ہے۔ اور وہ حجت ہو بھی تو ہم قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام مجتہد صحابہ کرامؓ اس موقع پر موجود تھے۔ پھر اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر ؓ کی طرف اس روایت کی نسبت بھی ظنی ہے اور یہی وجہ ہے، واللہ اعلم، کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب شراحہ کو جلد اور رجم کی سزا دی تو کہا کہ میں نے اس کو کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگوائے ہیں اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق رجم کرایا ہے۔ اس قول میں حضرت علی ؓ نے رجم کے لئے منسوخ التلاوت آیتِ قرآنی کو حجت میں پیش نہیں فرمایا۔