وسیلہ کے انواع و احکام
مصنف : ناصر الدین البانی
صفحات: 202
مسئلہ آخرت کاہو یا دنیا کاانسان ’’ وسیلہ‘‘ کامحتاج ہے ۔ وسیلہ زندگی کی ایک بنیادی حقیقت ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کااعتراف ہرحقیقت پسند کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اہل یمان کووسیلہ کاحکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدہ) ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘۔وسیلہ کامطلب ہے ایسا ذریعہ استعمال کیا جائے جو مقصود تک پہنچا دے۔توسّل اور اس کے شرعی حکم کے بارے میں بڑا اضطراب واِختلاف چلا آ رہا ہے ۔کچھ اس کو حلال سمجھتے ہیں اورکچھ حرام ۔کچھ کو بڑا غلو ہے اور کچھ متساہل ہیں ۔اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیاہے ، جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت ۔مثلاً اولیاء کی قبریں ،ان قبروں پر لگی ہوئی لوہے کی جالیاں ،قبر کی مٹی ،پتھر اور قبر کے قریب کا درخت۔اس خیال سے کہ ”بڑے کا پڑوسی بھی بڑا ہوتا ہے”۔اور صاحب قبر کے لئے اﷲکا اکرام قبر کو بھی پہنچتا ہے ‘جس کی وجہ سے قبر کا وسیلہ بھی اﷲکے پاس درست ہوجاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین نے تو غیر اﷲسے استغاثہ کو بھی جائز قرار دے دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ یہ بھی وسیلہ ہے ‘حالانکہ یہ خالص شرک ہے جو توحید کی بنیاد کی خلاف ہے۔ جائز وسیلہ کی تین صورتیں ہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔ 1۔اللہ تعالیٰ کے اسماء کا وسیلہ قرآن میں ہے: وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا(الاعراف:108)’’اور اللہ کے اچھے نام ہیں پس تم اس کے ناموں سے پکارو‘‘۔اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماء حسنیٰ کے وسیلہ سے دعا کرنا درست ہے جیسا کہ اوپر آیت میں ذکر ہے جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبیﷺ سے دعا کا پوچھا تو آپﷺ نے یہ دعا پڑھنے کا کہا: ” قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ “(صحيح بخاری:834’)’اے اللہ ! یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ۔پس تو اپنی خصوصی بخشش کے ساتھ میرے سب گناہ معاف کردے او رمجھ پر رحم فرما، بے شک تو ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کو وسیلہ بنایا گیا۔ 2۔اللہ کی صفات کے ساتھ وسیلہ حدیث میں ہے: ’’اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي‘‘(سنن النسائی :1306)’’اے اللہ میں تیرے علم غیب او رمخلوق پر قدرت کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے مجھے حیات رکھا او رجب تیرے علم کے مطابق میرا مرنا بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفات، علم او رقدرت کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔3۔ نیک آدمی کا وسیلہ ایسے آدمی کی دعا کو وسیلہ بنانا کہ جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔احادیث میں ہےکہ صحابہ کرام بارش وغیرہ کی دعا آپؐ سے کرواتے۔(صحيح بخاری :847)۔حضرت عمرؓ کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو لوگ حضرت عباسؓ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ حضرت عمر اس موقع پر فرماتے ہیں: ’’اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ (صحيح بخاری:1010)۔ ’’اے اللہ! پہلے ہم نبیﷺ کووسیلہ بناتے (بارش کی دعا کرواتے) تو تو ہمیں بارش عطا کردیتا تھا اب (نبیﷺ ہم میں موجود نہیں) تیرے نبیﷺ کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) وسیلہ بنایا ہے پس تو ہمیں بارش عطا کردے۔اس کے بعد حضرت عباسؓ کھڑے ہوئے اور دعا فرمائی۔مذکورہ صورتوں کے علاوہ ہر قسم کاوسیلہ مثلاً کسی مخلوق کی ذات یافوت شدگان کا وسیلہ ناجائز وحرام ہے۔
زیر تبصرہ کتاب’’وسیلہ کے انواع واحکام‘‘علامہ ناصر الدین البانی کی وسیلہ کے موضوع پر اہم کتاب ’’ التوسل انواعہ واحکامہ‘‘ کا اردوترجمہ ہے ۔ یہ کتاب دراصل شیخ البانی کے مسئلہ وسیلہ کے موضوع پر دو لیکچرز کا مجموعہ ہے جو انہوں نے 1392ھ میں دمشق میں مسلمانوں کے ایک جم غفیر کے سامنے ارشاد فرمائے تھے۔انہوں نے ان لیکچرز میں اپنے مخصوص فاضلانہ ، محققانہ ومحدثانہ انداز میں وسیلہ کے شر ک کی بھر پور تردید اورمذمت بیان فرمائی۔کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں بہت خوبصورت طریقے سے وسیلہ کےلغوی وشرعی مفہوم کی تشریح وتوضیح فرمائی اور مخالفین کےاعتراضات اور شکوک وشبہات کے نہایت مسکت جواب دئیے۔آپ کے انہی لیکچرز کو آپ کے ایک شاگرد رشید محمد العید العباسی نے ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے مرتب کیا اور پھر’’التوسل انواعہ واحکامہ ‘‘ کے نام سے زیور طباعت سے آراستہ کیا۔بہت ہی قلیل مدت میں اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔اہل علم کے ہاں اسے قبول عام کا درجہ ملا۔اس کی افادیت کی بنا پر اس محمد خالد سیف﷾ نے اس کا رواں وسلیس ترجمہ کیا جسے طارق اکیڈمی ،فیصل آباد نے تقریباً 25سا ل قبل حسن ِطباعت سےآراستہ کیا۔ اللہ تعالیٰ شیخ ناصر الدین البانی ،مرتب ومترجم کی تمام کاوشو ں کو قبول فرمائے اوراس کتاب کو عامۃ المسلمین کے عقیدہ کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔ (آمین)
عناوین | صفحہ نمبر |
عرض مترجم | 5 |
مقدمہ | 9 |
وسیلہ اور اس کے انواع و احکام | 11 |
پہلی فصل : | 14 |
وسیلہ لغت اور قرآن کی روشنی میں | 14 |
وسیلہ کے معنی لغت عر ب میں | 14 |
وسیلہ کے معنی ازروئے قرآن | 16 |
سرف اعمال صالحہ ہی تقرب الہی کا ذریعہ ہیں | 19 |
عمل صالح کیا ہو تا ہے ؟ | 20 |
دوسری فصل : | 22 |
تکوینی اور شرعی وسائل | 22 |
وسائل کی صحت اور مشروعیت کیسے معلوم ہو؟ | 29 |
تیسری فصل : | 38 |
شرعی وسیلہ اور اس کی اقسام | 38 |
اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے ساتھ وسیلہ | 39 |
کسی عمل صالح کے ذریعہ وسیلہ | 44 |
نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ | 52 |
چوتھی فصل : | 70 |
اعتراضات اور ان کے جوابات | 70 |
ایک اعتراض اور اس کا جواب | 70 |
دوسرااعتراض حدیث ضریر | 91 |
ایک وہم کا ازالہ | 103 |
تیسرا اعتراض وسیلہ کے بارے میں ضعیف احادیث | 123 |
پہلی حدیث | 123 |
دوسری حدیث | 129 |
تیسری حدیث | 131 |
چوتھی حدیث | 132 |
پانچویں حدیث | 134 |
چھٹی حدیث | 136 |
یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے | 146 |
ساتویں حدیث | 149 |
دو ضعیف اثر | 152 |
وسیلہ اور طلب دعا میں فرق ہے | 156 |
غیر اللہ سے فریاد رسی | 159 |
یا شیخ عبدالقادر الجیلانی شیاءللہ | 160 |
آنحضرت ﷺ کی قبر پر روشندان | 162 |
سنن دارمی کی حیثیت | 166 |
سنن اربعہ | 166 |
چوتھا اعتراض خالق کا مخلو ق پر قیاس | 167 |
پانچواں اعتراض کیایہ وسیلہ جایز بھی نہیں ؟ | 172 |
چھٹا اعتراض توسل ذات اور توسل عمل صالح | 174 |
ساتواں اعتراض ذات نبی کے ساتھ توسل کا آثار نبی کے ساتھ تبرک پر قیاس | 175 |
بوطی کا تبرک اور توسل کو ایک سمجھنا | 179 |
آنحضرتﷺ کے آثار کا وسیلہ | 184 |
ایک بہت بڑا بہتان | 187 |
کیا آنحضرتﷺکا وسیلہ اس لیے کہ آپ افضل الخلاق ہیں ؟ | 189 |
لفظ استشفاع کے لغوی معنی | 192 |