تاریخ صحافت
مصنف : ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر
صفحات: 233
صحافت کسی بھی معاملے بارے تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔صحافت پیشہ کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنیٰ کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔اردو اخبار نویسی کی تاریح انتہائی پرانی بھی نہیں ۔ دراصل اس کی شروعات چھاپہ خانے کے رواج کے بعد سے ہوئی سب سے پہلا اردو کا اخبار ”اخبار دہلی “تھا جسے مولوی باقر نے دہلی سے جاری کیا تھا ۔ بہت سے معلومات افزا مضامین علمی ، ادبی ،تاریخی اورتعلیمی موضوعات پر اس میں شائع ہوتے تھے ۔ 1857کی جنگ آزادی میں اس اخبار کا بڑااہم کردار رہا ہے ۔چونکہ اس کی پالیسی آزاد خیالی تھی ، اس لئے اس زمانہ میں سامراجی حکومت کے خلاف خوب لکھا گیا ۔ ہندوستانی قوم پرستی یعنی حبِ وطنی کی حمایت کی ۔ یہی وجہ ہے کہ غدر فرو ہونے پر مولوی باقرکو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا اور اس طرح حب الوطنی کے محاذ کی قربان گاہ پر اردو صحافت کے پہلے قوم پرور اورمحب وطن کی قربانی ہوئی ۔اردوکے دوسرے اخبار کے طورپر ”سید الاخبار“کا نا م سامنے آتا ہے ۔ اس کی ابتدا ءدہلی میں ہی سرسید کے بھائی محمد کے ہاتھوں ہو ئی تھی ۔ یہی وہ اخبار ہے جس کے ذریعہ سرسید کے خیالات سے عوام متعارف ہوئے ۔ اس کے بعد سے اردو اخبار کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتاہے ، جوانمرد ، محب وطن ، بےباک و نڈر بہت سے قلم کے شہ سوار صحافتی افق پر نمودار ہوتے ہیں ، آسمان ِ صحافت کے اولین ستاروں میں مولانا ظفر علی خان ، مولانا ابو لکلام آزاد ، مولانا محمدعلی جوہر ، مولانا حسرت موہانی اورمولانا عبد الحمید سالک وغیرہ ہیں ۔ زير تبصره کتاب ’’ تاریخ صحافت ‘‘ جناب محمد افتخار کھوکھر کی تصنیف ہے ۔ فاضل مصنف نے مولانا امداد صابری کی کتاب ’’ تاریخ صحافت اردو ‘‘ اور صحافت کے موضوع پر محمد عتیق صدیقی، ڈاکٹر عبد السلام خورشید ، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تحقیقی کاوشوں سے استفادہ کر کے صرف ان مطالب کا احاطہ کیا ہے جو ایم ۔ اے ابلاغیات کی نصابی ضروتوں کوپورا کرتے ہیں ۔ اس کتاب میں برصغیر کی مسلم صحافت کو جس دلچسپ اور عام فہم اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف متعلقہ مضمون کے اساتذہ اور طلبہ مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ صحافت اور ابلاغیات سے دلچسپی رکھنے والے عام قارئین بھی اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔