تاریخ المکۃ المکرمہ
مصنف : محمد عبد المعبود
صفحات: 990
بلدحرام مکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کو سب شہروں سےزیادہ محبوب ہے ۔ مسلمانوں کا قبلہ اوران کی دلی محبت کا مرکز ہے حج کا مرکز اورباہمی ملاقات وتعلقات کی آماجگاہ ہے ۔ روزِ اول سے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعظیم کے پیش نظر اسے حرم قرار دے دیا تھا۔ اس میں ’’کعبہ‘‘ ہے جو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا سب سےپہلا گھر ہے ۔ اس قدیم گھر کی وجہ سےاس علاقے کو حرم کا درجہ ملا ہے۔ اوراس کی ہر چیز کو امن وامان حاصل ہے ۔ حتیٰ کہ یہاں کے درختوں اور دوسری خورد ونباتات کوبھی کاٹا نہیں جاسکتا۔ یہاں کے پرندوں اور جانوروں کوڈرا کر بھگایا نہیں جاسکتا۔اس جگہ کا ثواب دوسرےمقامات سے کئی گناہ افضل ہے۔ یہاں کی ایک نماز ایک لاکھ نماز کا درجہ رکھتی ہے ۔ مکہ مکرمہ کو عظمت ، حرمت او رامان سب کچھ کعبہ کی برکت سےملا ہے۔مکہ مکرمہ تاریخی خطہ حجاز میں سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ مکہ جدہ سے 73 کلومیٹر دور وادی فاران میں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے ۔ یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔یہ شہر اسلام کا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقام بیت اللہ یہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کا حج کرنا فرض ہے ۔مسجد حرام کے اندر قائم خانۂ کعبہ سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل نے تعمیر کیا ۔کعبۃ الله کی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیل سے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماں محمد ﷺپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی ﷺپر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پرہی مسجد حرام واقع ہے جوکہ لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لئے برکت و ہدایت والا ہے“ ( آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانروا ابرہہ ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے ، اپنے سردار عبدالمطلب کی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے ۔ اس پر اللہ تعالٰی کے حکم سے ہزاروں ابابیل چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انہوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکر منیٰ کے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔ تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالیٰ کے حکم سے تباہ و برباد ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اس حادثے کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا ہے۔یہ وہی سال تھا جب آنحضرت ﷺکی پیدائش ہوئی۔ نبی کریم ﷺنے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اور تبلیغ اسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10 رمضان المبارک 8ھ بمطابق 630ء میں مسلمان حضور ﷺ کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے ۔ مدینہ ہجرت جانے کے بعد رسول اللّہ ﷺکی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کو فتح مکہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور ﷺنے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتِ اسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جو کعبۃ الله سے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے ۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی بھی ملت اسلامیہ کا دارالخلافہ نہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دارالخلافہ مدینہ تھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں بھی مدینہ ہی دارالخلافہ رہا اور پھر سیدنا علی کے زمانے میں پہلے کوفہ اور اس کے خاتمے کے بعد دمشق اور بعد ازاں بغداد منتقل ہوگیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔1926ء میں سعودیوں نے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کو سعودی عرب میں شامل کرلیا۔جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جارہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہوچکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے ۔ حالیہ سالوں میں 30 لاکھ سے زائدمسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمان عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیت بیت اللہ کو حاصل ہے جو مسجد حرام میں واقع ہے ۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گرد طواف کرتے ہیں، حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں اور زمزم کے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی اور منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل بھی کیا جاتا ہے ۔ حج کے دوران میدان عرفات میں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تاریخ المکۃ المکرمہ‘‘ جناب محمد عبد المعبود کی تصنیف ہے اردو زبان میں اپنے موضوع پر سب زیادہ جامع اور مستند کتاب ہے۔کیونکہ یہ نامور متقدمین مؤرخین کی کتب سے مکمل استفادہ کرتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے ۔یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں مکہ معظمہ کی تہذیبی ،تمدنی،ارتقائی، اقتصادی ، معاشرتی اور سیاسی تاریخ سے متعلق تفصیلی بحث موجود ہے ۔ اور دوسرے حصہ میں حرم کعبہ اور اسکے ملحقات کی چار ہزار سالہ نادر تاریخی دستاویزات رقم کی گئی اور تیسرے حصہ میں مکہ مکرمہ رائج نظام تعلیم ،مدارس ، زراعت اور صعنت پر سیر حاصل ابحاث ہیں۔ ہر بحث مستند حوالہ جات سے مزین کی گئی ہے ۔ الغرض یہ کتاب مکہ مکرمہ اور بیت اللہ شریف کی چار ہزارسالہ مکمل مفصل اور مدلل تاریخ ہے ۔اپنی افادیت کے اعتبار سے ہر مسلمان کی مطمح نظر اورہر لائبریری کی شانہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔(آمین)
عناوین | صفحہ نمبر |
بسم اللہ | 1 |
نام کتاب وغیرہ | 2 |
انتساب | 3 |
آئینہ کتاب | 4 |
پیش گفتار | 9 |
نقشہ | 14 |
مکتوب شریف | 16 |
باب اول | |
مکہ مشرفہ | 17 |
وجہ تسمیہ | 19 |
اسماء مقدسہ | 20 |
ارض مکہ کی پیدائش | 27 |
محل وقوع | 29 |
حدود اربعہ | 32 |
موسم | 36 |
مردم شماری | 37 |
مکہ کےمحلے | 39 |
سڑکیں | 42 |
مکہ سے مدنیہ کا راستہ | 44 |
مکہ کو آنے والی چندشاھراہیں | 48 |
مکہ سےبعض مشہور شہروں کا فاصلہ | 49 |
فضائل مکہ | 52س |
فضل مکہ(نظم) | 65 |
شہر خوباں کی آبادی | 66 |
پر شکوہ تعارفی جھلک | 69 |
سیدہ ہاجرہ | 72 |
سیدنا اسماعیلؑ | 74 |
خاندان ابراھیمی کا مکہ میں ورود | 76 |
دعاے ابراھیمی | 78 |
مہمان ذی شان | 81 |
جرہم کی آمد | 85 |
ذبیح اللہ | 88 |
سیدنا اسماعیل کا عقد | 95 |
عقد ثانی | 97 |
سیدنا اسماعیل ؑ کا وصال | 101 |
باب دوم | |
مکہ معظمہ یورپین مؤرخین کی نظر میں | 105 |
مغربی مؤرخین کا مبلغ علم | 105 |
یورپ علوم و فنون میں عربوں کا شاگردہے | 108 |
عربوں سے تعصب موروثی ہے | 111 |
مکہ کی قدامت پر تورات، انجیل اور زبور شہادت | 114 |
یونانی اور مسیحی تاریخ میں مکہ اور بیت اللہ کا تذکرہ | 124 |
دیوتاؤں کا ذکر | 128 |
حج بیت اللہ کا ذکر | 129 |
جزیرہ العرب کی تقسیم اور اولاد اسما عیل کے مسا کن | 133 |
عالمی تجارتی منڈی میں مکہ کا مقام | 141 |
سوم باب | |
عہد ابراہیمی سے ظہوراسلام تک اور شہ کونین کے اجداد کا نسب نامہ | 147 |
عہد ابراہیمی میں مکہ معظمہ | 149 |
عہداسماعیلی میں مکہ | 150 |
جرہم کے زمانہ میں مکہ | 152 |
خزاعہ کے زمانہ میں مکہ | 156 |
شاہ تبع کی مکہ میں آمد | 158 |
قریش کا درخشندہ دور اور شہ کو نین کا نسب نامہ | 160 |
قریش کی اقسام | 163 |
قریش کے قبائل اورمساکن | 164 |
قصی بن کلاب | 166 |
قصی کے تابندہ کارنامے | 170 |
علامہ قطب الدین کا ہدیہ سپاس | 174 |
قصی کا زمانہ | 176 |
معاشی استحکام | 176 |
ہاشم | 177 |
عبدالمطلب | 179 |
واقعہ فیل | 182 |
باب چہارم | |
ظہور قدسی سے خالدبن عبدالعزیز تک | 187 |
ظہور قدسی | 189 |
سفر مد ینہ | 194 |
ابوا اور مستورہ | 195 |
جنگ فجاز | 198 |
حلف الفضول | 199 |
شغل تجارت | 200 |
غار حرا میں عبادت | 201 |
تبلیغ کی ابتداء | 202 |
وصال سیدہ خدیجہؓ | 203 |
معراج النبیﷺ | 205 |
ہجرت مدینہ | 209 |
ہجرت کے لیے روانگی | 211 |
صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک | 216 |
حضرت عثمان کی سفارت | 219 |
صلح حدیبیہ کے سیاسی اثرات | 222 |
عمرۃ القضاء | 224 |
فتح مکہ | 227 |
فتح مکہ کے سیاسی اثرات | 230 |
حجۃ الوداع | 231 |
شق القمر | 234 |
خلافت فاروقی | 240 |
خلافت اموی | 241 |
خلافت عباسی | 242 |
خلافت عثمانیہ | 243 |
خاندان سعود | 248 |
محمد بن عبدا لوہاب | 249 |
عہد ساز رفاقت | 251 |
علماء دیو بند کا ابتلاء | 255 |
مکہ کی جیل | 258 |
سلطان حجاز کا اعزاز | 265 |
باب پنجم | |
سیادت و قیادت اور مقامات مقدسہ | 269 |
سیاسی نظام | 271 |
مذہبی عہدے | 275 |
عدالتی،سیاسی اور جنگی عہدے | 275 |
کرنسی | 277 |
مالیاتی نظام | 277 |
معلم | 279 |
امراے مکہ | 280 |
امراے حج اور حوادثات | 292 |
ایام حج میں آتشزدگی | 303 |
محلہ جیاد میں آتشزدگی | 304 |
حرم کعبہ میں خوفناک جنگ | 305 |
مکہ یونیورسٹی کے سکالر کا خط | 310 |
سزاے موت | 312 |
مسا جد مکہ | 314 |
چند متبرک مکانات | 328 |
سیدہ خدیجہؓ کا مکان | 329 |
سیدنا علی ؓ کا مکان | 331 |
سیدنا عباسؓ کا مکان | 332 |
سیدنا ابی سفیانؓ کا مکان | 332 |
دارارقم | 333 |
سیدہ ام ہانیؓ کا مکان | 335 |
جبال مکہ | 336 |
باب ششم | |
رفاہی امور | 339 |
مکہ کے کنوئیں | 341 |
نہر زبیدہ | 343 |
مکہ میں سیلابوں کا تذکرہ | 355 |
سیلاب کی روک تھام کے لیے بند کی تعمیر | 371 |
مکہ کے ہسپتا ل | 372 |
پرنٹنگ پریس | 375 |
ذرائع ابلاغ | 378 |
کتب خانے | 382 |
فونٹن پین کا استعمال | 383 |
ذرائع مواصلات | 384 |
ڈاک خانہ | 384 |
ٹیلیگرام | 388 |
ٹیلیفون | 388 |
مکہ میں موٹرگاڑیاں کی آمد | 391 |
باب ہفتم | |
تہذیب و تمدن | 393 |
زبان | 395 |
مذہب | 397 |
تعلیم | 398 |
لباس | 398 |
خوراک | 401 |
روٹی پکانے کا طریقہ | 402 |
مشروبات | 404 |
حلاوات | 407 |
مچھلی کی درآمد | 407 |
مرغی خانے | 409 |
شادی کی رسومات | 409 |
تجہز وتکفین | 410 |
تجارت | 412 |
سامان تجارت | 414 |
تجارتی میلے | 417 |
مکانات | 419 |
تعمیراتی نظام | 424 |
قہوہ خانے | 426 |
ہوٹل یا فندق | 428 |
رباط | 429 |
صنعت و حرفت | 431 |
زرگری | 431 |
صراحی کی صنعت | |
پلاسٹک کی صنعت | 433 |
برف سازی | 434 |
آٹا مشین | 436 |
مکہ کے با غات | 437 |
بجلی کا استعمال | 442 |
ٹیلی ویثرن کا استعمال | 442 |
لاؤڈ سپیکر | 442 |
گھڑیوں کی آمد | 443 |
سٹوڈیو | 445 |
عمرانی ترقی | 447 |
ماخذ | 450 |