تفسیر محمدی ملقب بہ موضع فرقان جلد دوم
مصنف : حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی
صفحات: 363
برصغیر پاک و ہند میں لکھوی خاندان نے اسلام کی جو خدمت کی ہے اس سے شاید ہی کوئی پڑھا لکھا آدمی ناواقف ہو۔ تفسیر محمدی کے مصنف مولانا حافظ محمد بن حافظ بارک اللہ لکھوی (1221ھ۔1311ھ) مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کے قصبہ لکھوکے میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم کا آغاز اپنے والد محترم حافظ بارک اللہ سے کیا پہلے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد صرف ، نحو ،فارسی ، منطق ، فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں بھی اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں اس کے بعد لدھیانہ جاکر مختلف علماء سے مختلف علوم میں استفادہ کیا۔ بعد ازاں مولانا عبداللہ غزنوی اور مولانا غلام رسول قلعوی رحمہما اللہ کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے اور شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے تفسیر ، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔دہلی سے واپس آکر اپنے والد حافظ بارک اللہ مرحوم سے مل کر موضع لکھوکے میں1850ء کے لگ بھگ ’’مدرسہ محمدیہ ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی۔ متحدہ پنجاب کےضلع فیروز پور میں اہل حدیث کا یہ اوّلین مدرسہ تھا ایک صدی تک لکھوکے اس مدرسہ کا فیض جاری رہا اور اس درسگاہ سے ہزاروں علمائے کرام مستفیض ہوئے ۔اس مدرسے میں برصغیر کے وہ متعدد حضرات حصولِ علم کے لیے تشریف لائے ، جنہوں نےآگے چل کر برصغیر کے تحقیق وتدریس کے میدان میں بے حدشہرت پائی۔ان میں مولانا حافظ عبد ا للہ روپڑی،مولانا عبد الوہاب دہلوی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی، مولانا عبد الواحد غزنوی،مولاناعطاء اللہ حنیف،حافظ عبداللہ بڈھیمالوی رحمہم اللہ کےعلاوہ دیگر بے شمار علماء کرام کےاسمائے گرامی شامل ہیں۔ایک روایت کے مطابق فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ بھی مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بن حافظ محمد لکھوی رحمہما اللہ سے ملاقات کے لیے لکھوکے گئےتھے ۔ 1930ء میں مولانا عبدالقادر لکھوی اور ان کے صاحبزادے مولانا عطاءاللہ لکھوی رحمہما اللہ لکھوکے کے مدرسہ کے ذمہ دار مدرس تھے ۔ تقسیم ملک (اگست 1947) کےبعد اوکاڑہ میں یہ مدرسہ ’’جامعہ محمدیہ‘‘ کےنام سے قائم ہوا جو آج تک کامیابی سے جاری وساری ہےجامعہ محمد یہ کے اولین ناظم ومہتمم مولانا معین الدین لکھوی اور شیخ الحدیث مولانا عطاءاللہ لکھوی رحمہما اللہ تھےجو کہ 26 نومبر 1952 تک یہاں شیخ الحدیث رہے ۔ صاحب تفسیر محمد ی حافظ محمد لکھوی مرحوم بہت بڑے عالم ،محقق،مصنف،مصلح اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ حافظ محمد لکھوی نے عربی، فارسی، پنجابی میں تدریسی،دعوتی وتبلیغی اور علمی نوعیت کی تقریبا تیس کتابیں تصنیف کیں ۔ قرآن مجید کا فارسی اور پنجابی میں ترجمہ کیا۔ ان کی پنجابی اشعار کی کتابیں بے حد شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ ان کی پنجابی نظم میں” تفسیر محمدی‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے حافظ محمد لکھوی کو ان کی تدریسی اور تصنیفی خدمات کی وجہ سے مصلح پنجاب کہا جاتا ہے۔ موصوف نے 27؍اگست 1893ء مطابق 13صفر 1311ھ 90سال کی عمر میں لکھوکے ضلع فیروز پور میں وفات پائی ۔(رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ) حافظ محمد لکھوی کے بیٹے مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بھی جلیل القدر عالم اور بدرجہ غایت تقویٰ شعار بزرگ تھے۔ حج بیت اللہ کے لئے گئے اور مسجد نبوی میں حالت ِ سجدہ میں وفات پائی جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی مرحوم کےبیٹے مولانا محمد علی لکھوی مدنی (دادا ڈاکٹر حماد لکھوی و ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی ) نے ایک عرصے تک اپنے جد ِ امجد اور والد ِمکرم کی مَسند درس پر بیٹھ کر لکھوکے میں طلبہ کو علومِ دین کی تعلیم دی پھر مدینہ منورہ چلے گئے۔ وہاں 46سال مسجد نبوی میں قرآن وحدیث کا درس دیا اورلا تعداد تشنگانِ علوم ان سے فیض یاب ہوئے، جن میں سعودی عرب، الجزائر، شام، مصر، سوڈان، اردن، لیبیا، کویت، نجد اور افریقی ملکوں کے بے شمار علماو طلبا و شامل ہیں۔ مولانا محمد علی لکھوی قرآن وحدیث کا درس دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں فوت ہوئے اور جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی بن مولانا محی الدین لکھوی(ڈین شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب ،وائس چئیرمین پیغام ٹی وی) اور ڈاکٹر عظیم الدین بن مولانا معین الدین لکھوی (ماہر امراض دل و بلڈ پریشر، معروف سیاستدان) بھی اسی خاندان کےعظیم سپوت ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کےعلم وعمل میں خیروبرکت کرے اور ان کی مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔ اللہ تعالیٰ لکھوی خاندان کی عظیم علمی شخصیات ڈاکٹر حماد لکھوی ، مولانا حفیظ الرحمن لکھوی ، مولانا خلیل الرحمن لکھوی حفظہم اللہ کے علم وعمل اور عمر میں خیر وبرکت فرمائے کہ وہ اپنے خاندان کی علمی روایت کے امین ہیں۔ا ور اللہ تعالیٰ ان کے بعد ان کے جانشینوں کو اس خاندان کی علمی روایت کوباقی رکھنے کی توفیق دے (آمین) حافظ محمد لکھوی کی زیر نظر کتاب ’’تفسیر محمدی ملقب بہ موضع فرقان ‘‘ اولین منطوم پنجابی تفسیر ہےیہ قدیم پنجابی تفسیر قرآن مجید کی سات منازل کے مطابق سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔یہ تفسیر ’’موضع فرقان‘‘ کے نام سے تالیف کی گئی جوکہ ’’تفسیر محمدی‘‘ کےنام سے معروف ہے۔ صاحب تصنیف نے 1286ھ بمطابق 1869ء میں اس تفسیر کی ابتداء کی اور دس سالوں میں اسے مکمل کیا ۔1288ھ بمطابق 1871ءمیں اس کی پہلی منزل(جلداول) طبع ہوئی بعد ازاں یہ تفسیر کئی بارشائع ہوئی یہ پہلی پنجابی تفسیر ہے کہ اس سے پنجابی خواص وعوام کو بے حدفائدہ پہنچا۔محدث لائبریری،لاہور میں اس کی مختلف طباعت ( 1301،1302،1309،1315،1339،1340، 1342ھ) کی متفرق جلدیں موجود ہیں جن کی فوٹو کاپی ،سکیننگ کرنا مشکل تھی ۔ تو پروفیسر ڈاکٹر حمادلکھوی صاحب کی ذاتی لائبریری سے یہ کتاب لے کر سکین کی گئی ہےاور اسے کتاب وسنت پر سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے تاکہ اس قدیم اور نایاب تفسیر کو انٹرنیٹ پر محفوظ کیا جاسکے ۔یہ نسخہ مکتبہ اصحاب الحدیث ،لاہور کا مطبوعہ ہے۔مکتبہ اصحاب الحدیث نے75سال قبل طبع ہونے والے قدیم نسخہ کا عکس لے کر 2002ء میں طبع کیا تھا ۔ تفسیر محمدی میں قرآن مجید کے دو ترجمے بھی شاملِ اشاعت ہیں ایک ترجمہ فارسی زبان میں جو شاہ ولی اللہ دہلوی کی فارسی تفسیر تفسیر فتح الرحمٰن سے لیاگیا ہے اور دوسرا ترجمہ پنجابی نثر میں ہے جو صاحب تفسیر کا اپنا ترجمہ ہے۔حافظ محمد لکھوی نےتفسیرمحمدی کےعلاوہ تقریبا 30 کتابیں تصنیف کیں جن میں ’’ احوال الآخرت ‘‘؛’’زینت الاسلام ‘‘اور پاک وہند کے مدارس دینیہ میں شامل نصاب کتاب ’’ابواب الصرف‘‘ سرفہرست ہیں۔اللہ تعالیٰ لکھوی خاندان کی دینی وسماجی خدمات کو قبول فرمائے ۔آمین