صلہ رحمی اور اس کے عملی پہلو
مصنف : ام عبد منیب
صفحات: 129
صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدست اور کمزور ہے تو اس کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہ قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔ صلہ رحمی ہرطرح کی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے، ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے، غمی خوشی میں شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ہم نے ان رشتوں کے تقدس کا کتنا خیال رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُّوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ(البقرة، 2 : 27)’’یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺنے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہےاور صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غریب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں، جیسا کہ آجکل رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنےدوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی، نبی کریم ﷺنے فرمایا والدین اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ زیر نظر کتابچہ’’صلہ رحمی اور اس کے عملی پہلو‘‘ محترمہ ام عبد منیب اور ان کی لخت جگر مریم خنسا کی مشترکہ کاوش ہے جس میں انہوں نے صلہ رحمی کے معنی ومفہوم اور عملی پہلوؤں ، قطع رحمی کی سزا اور اس کی صورتیں ، قطع رحمی کا سد باب اور اسلامی قانون کو عام فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالی ٰ اسے عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے اور ہمیں صلہ رحمی کا صحیح مفہوم سمجھنے کی توفیق اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین ) کیونکہ اسی میں اتفاق و اتحاد ہے اور دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی ہے۔
عناوین | صفحہ نمبر | |
سخن وضاحت | 5 | |
صلہ رحمی انبیاء کا وصف | 7 | |
صلہ رحمی کا مفہوم | 12 | |
قرآن حکیم میں رشتہ داروں کے لیے الفاظ | 16 | |
قرآن حکیم میں صلہ رحمی کا خصوصی ذکر | 17 | |
صلہ رحمی کی اہمیت | 18 | |
رحم اور اس کی زبان اور شکل | 21 | |
صلہ رحمی کیا ہے | 22 | |
رشتہ داری میں حدود | 25 | |
صلہ رحمی اور نسب سیکھنا | 30 | |
رشتہ داری میں ترتیب | 32 | |
ادائے حقوق میں ترتیب | 35 | |
محرم و نا محرم رشتہ دار | 40 | |
قطع رحمی کی صورتیں | 50 | |
صلہ رحمی کے عملی رویے | 58 | |
صلہ رحمی اور ادائے حق | 66 | |
والدین صلہ رحمی کی محور | 92 | |
غیر مسلم رشتہ دار | 104 | |
عملا دین سے بیگانہ رشتہ دار اور ان سے تعلقات | 107 | |
سسرالی رشتہ دار اور صلہ رحمی | 115 | |
قطع رحمی کا سد باب اور اسلامی قانون | 117 | |
حرف آخر | 124 | |
ماخذ | 126 |