سیاست شرعیہ اردو
مصنف : امام ابن تیمیہ
صفحات: 307
ساتویں صدی ہجری کا دور ابتلاء وآزمائش کا دور تھا،اور اس کی سب سے بڑی وجہ اخلاق واعمال میں کتاب وسنت سے دامن بچانے کا مرض تھا۔امام ابن تیمیہ کے لئے یہ صورت حال بڑی تکلیف دی تھی،آپ اس صورتحال کو برداشت نہ کر سکے،قلم سنبھالا،تلوار اٹھائی،وعظ وتقاریر کا سلسلہ چھیڑا اور جب مخالفت شروع ہوئی تو بے خطر مخالفت کے عظیم سمندر میں کود پڑےاور چراغ حرم کے پروانوں کو میر کارواں کی طرح پکارنا شروع کر دیا،یہاں تک کہ مذہبی ابتری اور سیاسی انتشار میں اتحاد وجمعیت کی صورتیں نظر آنے لگیں۔عصر حاضر میں مسلمانوں کے سیاسی نظریات میں جو تزلزل پایا جاتا ہے وہ ساتویں صدی ہجری سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے۔صرف پاکستان ہی میں نہیں تمام دنیا میں مسلمان سیاسی توازن قائم رکھنے میں بڑی حد تک ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔جس کی سب سے بڑی وجہ ان اصولوں سے دوری اور بے تعلقی ہے جن کو اسلام میں سیاست شرعیہ کہا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ” سیاست شرعیہ ” امام ابن تیمیہ کی ایک عظیم الشان اور تاریخی کتاب ہے،جس میں انہوں نے اسلامی سیاست کو کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کیا ہے اور یہ بات مکمل طور پر واضح کر دی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے خواہ وہ انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا اخلاق ومعاملات سے ،اسلام نے جو نظام پیش کیا ہے وہ نہ صرف آخری ولازمی ہے بلکہ اس پر کاربند ہوئے بغیر نہ معاشرے میں خوبصورتی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی حکومتوں کے ایوانوں میں استحکام آ سکتا ہے۔امام ابن تیمیہ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ایماء پر ان کے معتمد خاص جناب مولانا محمد اسمعیل گودھروی صاحب نے کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم دونوں کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین
عناوین | صفحہ نمبر | |
مقدمہ | ||
کلام اول ۔از خواجہ الو حید | 3 | |
حالات امام ابن تیمیہ ۔از مولانا قاری احمد | 75 | |
مقدمہ کتاب ۔ از ابو العلا محمد اسمٰعیل گودھروی | 17 | |
رسو ل اکرم ﷺ کی سیاست | 2 | |
اسلا م کی جامعت | 23 | |
آمد و نود | 25 | |
بادشاہوں کے نام خطوط | 28 | |
غزوہ تبوک | 29 | |
قرآن کی تکمیل | 30 | |
وفات رسو ل ﷺ | 30 | |
بعیت خلافت | 31 | |
حزیمت و سٰتحی رفق | 32 | |
ایوان ورد | 35 | |
دوسراخط | 36 | |
غزو ہ روم | 37 | |
صدیق اکبرؓ کا ایثار | 38 | |
حضرت عمرفاروق ؓ کی خلافت | 39 | |
عہد فاروقی کی فتوحات | 39 | |
فتوحات دوم | 43 | |
فتح طر ابلس بر قہ وغیرہ | 47 | |
محکمہ تضا | 45 | |
عمال اور گورنروں کی مساوات | 50 | |
ر عایا کی دیکھ بھال | 51 | |
مجلس شوری ٰ | 53 | |
وصف علی الجملہ | 54 | |
شہادت عمر بن الخطاب ؓ | ٍ | 54 |
فاروق اعظم کے عمال حکام ، اورامرا | 56 | |
خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان | 61 | |
فتوحات | 61 | |
فتح قبرص | 62 | |
بغاوت | 63 | |
مکہ میں اجتماع | 63 | |
مصر کو فہ کے باصی | 65 | |
شہادت حضرت عثمان ؓ | 66 | |
حضرت علی ؓ کی خلافت | 68 | |
مخالفت حضرت عائشہ ؓ طلحہ ؓ اور زبیرہ ؓ | 68 | |
جنگ جمل | ٍ | 69 |
حضرت امیر معاویہ ؓ کی محالفت | 70 | |
واقعہ صفیں | 73 | |
تحکیم | 73 | |
حضرت امیر معاویہ نے مصر کو فتح کیا | 75 | |
شہادت حضرت علی ؓ | 76 | |
خلافت حضرت امام حسن | 77 | |
سیاست شر عیہ کی اہمیت | 78 | |
مقدمہ از مصنف | 81 | |
پہلی فصل کے مضامین | 85 | |
مستحقین ولایت امر | ||
نائبین سلطان | ||
قضاۃ | ||
امراء لشکر | ||
چھوٹے بڑے احکام | ||
دالیان اموال ووزراء | ||
منشیان وزارت | ||
خراج ، صدقات و زکوۃٰ وصول کرنیوالے | ||
فوج کے والی | ||
مر داران لشکر | ||
دوسری فصل کےمضامین | 96 | |
اصلح مو جو د ہے تو اسے ولایت دینی چاہیے | ||
اصلح ہو تو صالح کر دینا چاہیے | ||
ہر منصب کے لئے الا مثل فا لامثل | ||
ولایت کے لئے قو ت امانت کی ضرورت | ||
قاضی تین قسم کےہیں | ||
تیسری فصل کے مضامین | 100 | |
اجتماع قو ت وانت | ||
جنگ جو شجاع دلیر فاجر ہے | ||
صالح ہے مگر کمزور ہے | ||
چوتھی فصل کے مضامین | 107 | |
اصلح کی پہچان | ||
مقصود ولایت کی معرفت | ||
مقصد ولایت دین کی اصلاح | ||
جمعہ و جماعت کا قیام | ||
مخلوق کی دینی ا صلاح | ||
اللہ کی کتاب | ||
نبی ﷺ کی سنت | ||
دین کو جاری اور باقی رکھنا | ||
پانچویں فصل کے مضامین | 114 | |
امانتوں کی دوسری قسم مال ہے | ||
دیوان خاصہ عامہ | ||
دویعت و شرکت | ||
توکل و مضاربت | ||
یتیم کے اموال | ||
اوقاف | ||
صدقہ ، خیرات | ||
عاملین مو لفۃ القلوب | ||
غلام کو آزاد کرانا | ||
قرضہ دارو ں کو دینا | ||
اللہ کی راہ میں دنیا | ||
چھٹی فصل کے مضامین | ||
سلطانی مال کتاب و سنت کی مطابق | ||
مال کی تین قسمیں | ||
مال غنیمت | ||
مال صدقہ و خیرات | ||
مال فی | ||
آنحضرت ﷺ کو پانچ چیزیں دیگر انبیا ءسے زیادہ دی ہیں | ||
کمزوروں کی وجہ سے ورزی و نصرت | ||
مال غنیمت کی تقسیم | ||
بنی امیہ اور بنو عباس کا طرز عمل |