ششماہی رشد ، جلد نمبر 14 ، شمارہ نمبر9 ،جنوری 2018ء

ششماہی رشد ، جلد نمبر 14 ، شمارہ نمبر9 ،جنوری 2018ء

 

مصنف : لاہور انسٹی ٹیوٹ فار سوشل سائنسز، لاہور

 

صفحات: 125

 

محترم قارئین کرام!
اس وقت رشد کا نواں شمارہ(جنوری تا مارچ 2018ء) آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس شمارے کا پہلا مقالہ “تحقیق حدیث میں از روئے متن شذوذ اور علت کی مباحث: ایک تحقیقی مطالعہ” کے عنوان سے ہے۔ شذوذ اور علت کی ابحاث روایت حدیث کی تحقیق کی اہم اور گہری ترین مباحث میں سے ہیں۔ اس مقالے میں متن حدیث میں شذوذ اور علت کی پہچان کے اصول وضوابط کا تعارف کروایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بتلایا گیا ہے کہ حدیث کی تحقیق میں سند کی تحقیق اور متن کی تحقیق یہ دو معیارات الگ الگ نہیں ہیں بلکہ حدیث کی تحقیق کے تمام اسالیب میں اصل مدار سند ہی ہے۔ حدیث کے متن کی تحقیق سے متعلق جتنی مباحث ہمیں اصول حدیث کی کتب میں ملتی ہیں، ان کا آخری نتیجہ بھی یہی ہے کہ سند کی دوبارہ یا سہ بارہ تحقیق ہو جائے۔ پس حدیث کے متن کی تحقیق کے لیے نقد روایت کے نام نہاد درایتی معیار کو مستقل معیارِتحقیق قرار دینا درست طرز عمل نہیں ہے۔ شمارے کا دوسرا مقالہ ” تبدیلی احکام پر اولیات عمر سےاستدلال اوراس کاتجزیہ ” کے موضوع پر ہے۔ “اولیات عمر ” سے مراد وہ احکامات ہیں جو حضرت عمر نے پہلے پہل اپنی خلافت میں جاری فرمائے۔ مقالہ نگار کے مطابق متجددین کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ “اولیات عمر ” اس بات کی دلیل ہیں کہ احوال وظروف کے تبدیل ہو جانے سے شرعی احکام بھی بدل جاتے ہیں۔ اس کے برعکس مقالہ نگار نے یہ ثابت کیا ہے کہ “اولیات عمر ” کا تعلق شرعی احکام کی منسوخی سے نہیں ہے بلکہ یہ حضرت عمر کا شریعت کی عمومی تعلیمات کا فہم ہے جو کہ انہوں نے بطور قانون نافذ اور لاگو فرمایا۔ مقالہ نگار کے مطابق اس مسئلے میں متجددین کی طرف سے جو امثلہ پیش کی گئی ہیں، ان میں استدلال کی غلطی موجود ہے۔ تیسرا مقالہ “عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کی تربیت: حدیث رسولﷺ کی روشنی میں” کے عنوان سے ہے۔ اس مقالے میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ رسول اللہﷺنے نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی میں کن اصولوں کو مد نظر رکھا تھا تا کہ آج کے مصلحین بھی انہی اصول ومبادی کی روشنی میں نئی نوجوان نسل کی تربیت میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ چوتھے مقالے کا موضوع ” عصر حاضر میں عورت کی معاشرتی حیثیت (قرآن وسنت کی روشنی میں)” ہے۔ مقالہ نگار نے قبل از اسلام کے جاہلی معاشروں میں عورت کی حیثیت کو بیان کرنے کے علاوہ جدید مغرب نے حقوق نسواں کی تحریکوں کے بدولت جو حقوق عورت کو عطاکیے ہیں، ان کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد مقالہ نگار نے اسلام میں عورتوں کو دیے جانے والے حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے جدید عورت کے حقوق، اور اسلام میں عورت کے حقوق کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام میں عورتوں کو جو حقوق دیے گئے ہیں، وہ تاحال کسی خطے، مذہب یا ازم میں نہیں دیے گئے۔ اور عام طور عورتوں کو حقوق دینے کے نام پر یوں استحصال کیا گیا ہے کہ ان پر حقوق کے نام سے مزید ذمہ داریاں ڈال دی گئیں۔ مزیدبرآں جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ماضی قریب میں یہ مجلہ بین الاقوامی سطح کے اعلیٰ تحقیقی معیار کے مطابق شائع ہوتا رہا ہے جس کی شہرت کی ایک بڑی وجہ علم قراءات کے خصوصی موضوع پر شائع ہونے والی وہ 3 ضخیم جلدیں بھی تھیں جو تقریباً 3000 صفحات پر مشتمل تھیں اور بلاشبہ اس اہم موضوع پر ہندوستان کی گذشتہ 3صد سالہ تاریخ میں اتنا جامع اور معیاری تحقیقی کام اس صورت میں موجود نہیں ہے ۔ بتوفیق ایزدی اسی سلسلے کا آخری اور چوتھا خاص نمبر آج کل تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، جس میں دیگر اہم علمی مقالات کے علاوہ اس فن پر موجود وسیع لٹریچر اور سابقہ تمام ’’رُشد قراءت نمبرز ‘‘ کے مختلف پہلووں سے بنائے گئے قیمتی اِشاریہ جات بھی شامل ہوں گے۔ جن اَحباب کے پاس سابقہ ’’رشد قراءات نمبرز‘‘ کی یہ جلدیں موجود ہیں، وہ اس سلسلے کے اس آخری خاص نمبر کو بھی اپنے ریکارڈ میں شامل کرنے کے لیے ابھی سے رابطہ فرمائیں کیونکہ اس خاص کی نمبر کی اشاعت محدود تعداد میں کی جا رہی ہے۔ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

 

عناوین صفحہ نمبر
اداریہ 9
تحقیق حدیث  میں از روئے متن شذوذ و علت کی مباحث:  تحقیقی مطالعہ   ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ، قاری محمد مصطفیٰ راسخ 11
تبدیلی احکام پر اولیات عمر﷜ سےاستدلال اوراس کاتجزیہ                                           حافظ طاہر الاسلام 45
عصر حاضرکے تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کی تربیت                          ڈاکٹر میمونہ تبسم ، حافظ جمشید اختر 85
عصر حاضر میں عورت کی معاشرتی حیثیت                                             ڈاکٹر حافظ شبیر احمد جامعی ، اسما شبیر 99

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
7.4 MB ڈاؤن لوڈ سائز

احادیثاحکاماسلاماصولتاریختحقیقتعلیماتحدیثحقوقخلافتشرعی احکامشریعتعلمعلمیقانونلٹریچرمذہبمقالاتنظرہندوستان
Comments (0)
Add Comment