ششماہی رشد ، جلد نمبر 12 ، شمارہ نمبر5 ، جنوری 2016ء
مصنف : لاہور انسٹی ٹیوٹ فار سوشل سائنسز، لاہور
صفحات: 126
اس وقت رشد کا پانچواں شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس شمارے میں پہلا مضمون ’’عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے محرکات‘‘ ہے۔سترہویں صدی ہجری کے صنعتی انقلاب اور بیسویں صدی ہجری کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں سارے عالم کو متاثر کیا، وہاں مذہب کی دنیا میں بھی ان گنت سوال پیدا کر دیے ہیں۔ مثلاً صنعتی ترقی اور معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے کاروبار کی ہزاروں ایسی نئی شکلیں متعارف ہوئیں ہے کہ جن کی شرعی حیثیت معلوم کرنا وقت کا ایک اہم تقاضا تھا۔ سیاسی انقلاب نے جمہوریت، انتخابات، پارلیمنٹ، آئین اور قانون جیسے نئے تصورات سے دنیا کو آگاہی بخشی۔ معاشرتی تبدیلیوں سے مرد وزن کے باہمی اختلاط اور باہمی تعلق کی حدود ودائرہ کار جیسے مسائل پیدا ہوئے۔ میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایجادات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا کہ جس سے کئی ایک ایجادات کے بارے شرعی حکم جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پس بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں اجتہاد کی تحریکیں برپا ہوئیں۔ تہذیب وتمدن کے ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسائل میں علماء نے رہنمائی کی، فتاویٰ کی ہزاروں جلدیں مرتب ہوئیں۔ اور اجتہاد کے عمل کو منظم انداز میں وقت کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی اجتہاد کے ادارے وجود میں آنے لگے۔ اس مقالے میں بیسویں صدی عیسوی کی اجتماعی اجتہاد کی اس تحریک کے پس پردہ محرکات اور اسباب کا ایک جائزہ پیش کیاگیا ہے۔ دوسرے مقالے کا عنوان ’’ جدید تصور درایت اور جدت پسند مفکرین کے درایتی اصول ‘‘ہے۔مغربی فکر وفلسفہ کے غلبے اور تسلط کے سبب سے برصغیر پاک وہند کے بعض معاصر مسلمان اسکالرز میں دین اسلام کے مصادر کو ریوائز کرنے کا جذبہ پیدا ہوا کہ ان کے خیال میں مغرب کے دین اسلام پر اعتراضات کی ایک بڑی تعداد احادیث پر اعتراضات کے ضمن میں شامل تھی۔ پس ’’درایت‘‘ کے نام سے احادیث کی جانچ پڑتال اور پرکھ کے نئے اصول متعارف کروائے گئے اور اس تصور درایت کو روایتی مصادر سے جوڑنے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس مقالے میں مولانا فراہی ، مولانا اصلاحی اور غامدی صاحب کے تصور درایت کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ محدثین کے تصور درایت اور جدید مفکرین کے تصور درایت میں نمایاں فرق موجود ہیں اور جدید تصور درایت کے نقلی وعقلی دلائل، نقل صریح اور عقل صحیح کے مخالف ہیں۔ تیسرے مقالے کا موضوع ’’ حقوق نسواں اور مسلم ممالک کی کشمکش: مسلم ممالک میں سماجی اور فکری تبدیلی ‘‘ ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں مسلم دنیا کے بیشتر علاقوں پر یورپی استعماری طاقتوں کے قبضے کے زیر اثر حقوق نسواں کی تحریکوں نے جنم لیا۔ ان تحریکوں نے مشرق وسطیٰ، مشرق بعید اور جنوبی ایشیاء کے مسلم ممالک میں عورتوں کی آزادی، عورتوں کی مخلوط تعلیم، مرد وزن کے اختلاط، مساوات مرد وزن، ستر وحجاب کی مخالفت، کثرت ازواج کی مخالفت، سیاست، روزگار، وراثت، گواہی، دیت اور کھیل وغیرہ میں مردوں کے برابر عورتوں کے حصے کے لیے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے منظم جدوجہد کی بنیاد بھی رکھی۔ اس مقالے میں حقوق نسواں کی تحریکوں کے مسلم دنیا کے مختلف حصوں میں معاشرتی نظام پر مرتب ہونے والے گہرے اثرات کا تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ پیش کیا گیا ہے اور یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ حقوق نسواں کی ان تحریکوں کی جدوجہد سے مشرقی عورت کو حقیقی طور کوئی فائدہ پہنچا ہے یا حقوق کے نام پر اس پر مزید ذمہ داریاں ڈال کر اسے مزید نقصان سے دوچار کیا گیا ہے۔
چوتھا مقالہ ’’ جدید سائنسی طریقہ ہائے تولید اور کلوننگ: مقاصد شریعت کی روشنی میں ‘‘ہے۔جدید سائنس نے جس تیز رفتاری سے ترقی کی ہے تو اس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح مذہب کو بھی متاثر کیا ہے۔ میڈیکل سائنس میں تحقیق کے سبب سے جو مسائل پیدا ہوئے، ان میں جدید سائنسی طریقہ ہائے تولید اور کلوننگ وغیرہ بھی ہیں۔ اس مقالے میں مصنوعی تخم ریزی (Artificial Insemination )، نلکی بار آوری (Test Tube Fertilization) اور کلوننگ (Cloning )کے ذریعے سے پودوں، جانوروں اور انسانوں میں مصنوعی تولید کے طریقوں اور ان کے شرعی جواز اور عدم جواز کے بارے مقاصد شریعت کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ پانچواں مقالہ ’’ حدیث مرسل: فقہاء کی نظر میں ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ مرسل اس روایت کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی تابعی کسی صحابی کا واسطہ چھوڑ کر براہ راست رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات نقل کر دے۔ عام طور یہ غلط فہمی عام ہے کہ فقہاء حدیث مرسل کو مطلقاً حجت مانتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ فقہاء کے ہاں حدیث مرسل کو قبول کرنے اور اس سے استدلال کرنے میں تفصیل ہے۔ عام طور فقہاء حدیث مرسل کو اس وقت قبول کرتے ہیں جبکہ ارسال کرنے والا راوی ثقہ ہو اور ثقہ ہی سے ارسال کرنے میں معروف ہو۔ البتہ محدثین، مرسل روایت کو ضعیف کی ایک قسم شمار کرتے ہیں اور اس سے حجت نہیں پکڑتے ہیں۔ اس مقالے میں حدیث مرسل کے بارے فقہاء کے نقطہ نظر کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
عناوین | صفحہ نمبر |
اداریہ | 9 |
دور حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے محرکات | 11 |
جدید تصویر درایت اور جدت پسند مفکرین کے درایتی اصول | 38 |
حقوق نسواں اور مسلم ممالک کی کشمکش ، مسلم ممالک میں سماجی اور فکری تبدیلی | 62 |
جدید سائنسی طریقہ ہائے تولید اور کلوننگ مقاصد شریعت کی روشنی میں | 98 |
حدیث مرسل فقہاء کی نظر میں | 111 |