شہادت حضرت عثمان ؓ
مصنف : میاں شبیر محمد گوندل
صفحات: 58
خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدناعثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کردیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى الله عنها حبشہ ہجرت فرماگئے، جب حضرت رقیہ رضى الله عنها کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى الله عنها کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا ۔اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺنے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی ۔جب رسول اکرم ﷺنے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہواکہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ ﷺنے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نےآپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کردیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺنے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہوگئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔ان کا دورِ حکومت تاریخ اسلام کا ایک تابناک اور روشن باب ہے ۔ ان کے عہد زریں میں عظیم الشان فتوحات کی بدولت اسلامی سلطنت کی حدود اطراف ِ عالم تک پھیل گئیں اور انہوں نے اس دور کی بڑی بڑی حکومتیں روم ، فارس ، مصر کےبیشتر علاقوں میں پرچم اسلام بلند کرتے ہوئے عہد فاروقی کی عظمت وہیبت اور رعب ودبدبے کو برقرار رکھا اور باطل نظاموں کو ختم کر کے ایک مضبوط مستحکم اورعظیم الشان اسلامی مملکت کواستوار کیا ۔نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کردیاگیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے82سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعۃ المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے شہید کردیا گیا۔سیدنا عثمان کوشہید کرنے کی یہ سازش درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی ، یہ سازش جو عبد اللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی درحقیقت صرف حضرت عثمان کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مسلمان تفرقہ اور انتشار میں ایسے گرفتار ہوئے کہ نکل نہ سکے۔یہ وہ بات تھی جس کی خبر حضرت عثمان نے ان الفاظ میں دی تھی کہ بخدا اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر تا قیامت نہ ایک ساتھ نماز پڑھو گئے نہ ایک ساتھ جہاد کرو گے۔آپ کی شہادت پر مدینہ میں کہرام مچ گیا ۔حضرت سعید بن زید نے ارشاد فرمایا لوگو واجب ہے کہ اس بد اعمالی پر کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے ،حضرت انس نے فرمایا حضرت عثمان جب تک زندہ تھے اللہ کی تلوار نیام میں تھی ،اس شہادت کے بعد یہ تلوار نیام سے نکلے گی اور قیامت تک کھلی رہے گی، حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا اگر حضرت عثمان کے خون کا مطالبہ بھی نہ کیا جاتا تو لوگوں پر آسمان سے پتھر برستے، حضرت علی کو جیسے ہی شہادت عثمان کی خبر ملی آپ نے فرمایا اے اللہ میں تیرے حضور خون عثمان سے بریت کا اظہار کرتا ہوں اور حافظ ابن کثیر نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علی حضرت عثمان کے پاس جا کر ان پر گر پڑے اور رونے لگےحتیٰ کے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ بھی ان سے جاملیں گئے۔علامہ ذہبی نے حضرت عثمان کے کمالات وخدمات کاذکران الفاظ میں کیاہے ‘ابوعمرعثمان ،ذوالنورین تھے ۔ان سے فرشتوں کو حیا آتی تھی۔ انھوں نے ساری امت کواختلافات میں بڑجانے کے بعدایک قرآن پرجمع کردیا۔وہ بالکل سچے ،کھرے ،عابدشب زندہ داراورصائم النہارتھے اوراللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ کرنے والے تھے،اوران لوگوں میں سے تھے جن کو آنحضرت ﷺنے جنت کی بشارت دی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ شہادت حضرت عثمان ‘‘میاں شیر محمد کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں انہو ں خلیفۂ ثالث سید نا عثمان بن عفان کی مختصر سوانح ، عادت وخصال ، فضائل ومناقب اور کارناموں کا ذکر کر نےکےبعد ان کی الم ناک شہادت کا ذکر کیا ہے۔اور کے قتل کرنے میں شامل افراد کےالگ الگ انجام کو بھی بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ قدرت نے اعدائے دین ، اعدائے صحابہ اوراعدائے سید نا عثمان سے نہایت شدید انتقام لیا۔سبائی پارٹی کے ایک ایک فرد کو عبرت ناک سزا دی خود عبد اللہ بن سبا اشق الاشقیاء جس نے دین کی تخریب،تفریق میں بین المسلمین اور حضرت عثمان کی خونریزی وخو ن آشامی کایہ سارا پروگرام بنایا تھا نہایت بری طرح آگ میں جل بھون کر واصل جہنم ہوا۔ اس کی پارٹی کاایک ایک منبر اور حضرت عثمان کا ایک ایک دشمن پاگل ہوکر ذلت کی موت مرا۔
عناوین | صفحہ نمبر |
خطبہ افتتاحہ | 3 |
عبداللہ بن سبا یہودی | 4 |
سبائی تحریک کے نتائج | 7 |
دربار خلافت سے تحقیقائی وفد کا تقرر | 8 |
صوبوں کے حکام کی طلبی | 10 |
مدینہ شریف میں حضرت امیر معاویہ ؓاور حضرت عثمان ؓ کی تقریر | 12 |
باغیان خلافت کی مدینہ میں آمد | 15 |
ایام محاصرہ کے حالات | 18 |
حضرت علی ؓکی تقریر حضرت عثمان ؓکی شان میں | 19 |
محاصرہ میں شدت | 21 |
حضرت عثمان ؓکی آخری تقریر | 22 |
رجوع بہ واقعہ شہادت | 25 |
حضرت عثمان ؓکی شہادت کا واقعہ | 26 |
حضرت عبداللہ بن سلام ؓکی تقریر | 27 |
حضرت کعب بن مالک ؓکے اشعار حضرت عثمان ؓکی شہادت پر | 30 |
مآثر ، مناقب عثمان رضئ اللہ عنہ | 30 |
حفاظت قرآن | 31 |
اشتراکی تحریک کا خاتمہ | 32 |
مسجد نبوی ؐ کی توسیع | 33 |
بیئر رومہ کی خریداری | 34 |
حضرت عثمان ؓکی صفات عالیہ | 35 |
آپ کی فیاضی اور سیر چشمی | 35 |
آپ کی سادگی اخلاق و عادات | 37 |
آپ کی تلاوت قرآن | 38 |
آپ کی ازواج و اولاد | 38 |
حضرت عثمان ؓکے قاتلین کا عبرت ناک انجام اور قدرت کا انتقام | 39 |
آپ کے ایک ایک دشمن کا براحشر ہوا | 40 |
عبد اللہ بن سبا کا انجام | 41 |
محمد بن ابو حذیفہ کا حال | 41 |
محمد بن ابی بکر ؓکا حال | 43 |
مالک بن الحارث الاشتر لعن کا حال | 45 |
حکیم بن جبلہ کا حال | 46 |
امام مظلوم حضرت عثمان ؓپر ظلم کرنے پر کتوں کی موت مرے | 48 |
ذریح بن عباد و ابن المخرش | 49 |
حضرت معاویہ ؓکا قصاص لینا | 49 |
کنانہ بن بشر کا حال | 50 |
عمرو بن المحق کا حال | 51 |
عبدالرحمن بن عدیس کا حال | 52 |
عمیر بن ضابی کا حال | 52 |
کمیل بن زیاد کا حال | 53 |
جہجاہ غفاری کا حال | 53 |
ایک لعین کا واقعہ | 54 |
خلاصہ | 54 |
فہرست مضامین | 55 |