سیرۃ سیدنا ابراہیم ؑ ( جدید ایڈیشن )
مصنف : محمد رضی الاسلام ندوی
صفحات: 210
سیدنا ابراہیم اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے ۔قرآن مجید میں وضاحت سے سیدنا ابراہیم کا تذکرہ موجود ہے ۔قرآن مجید کی 25 سورتوں میں 69 دفعہ حضرت ابراہیم کا اسم گرامی آیا ہے ۔اور ایک سورۃ کا نام بھی سورۂ ابراہیم ہے ۔حضرت ابراہیم نے یک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو شرک خرافات میں غرق اور جس گھر میں جنم لیا وہ بھی شرک وخرافات کا مرکز تھا بلکہ ان ساری خرافات کو حکومتِ وقت اورآپ کے والد کی معاونت اور سرپرستی حاصل تھی ۔جب حضرت ابراہیم پربتوں کا باطل ہونا اور اللہ کی واحدانیت آشکار ہوگئی تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو اسلام کی تلقین کی اس کے بعد عوام کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور پھر بادشاہ وقت نمرود سےمناظرہ کیا اور وہ لاجواب ہوگیا ۔ اس کے باجود قوم قبولِ حق سے منحرف رہی حتیٰ کہ بادشاہ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا مگر اللہ نے آگ کوابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دیا اور دشمن ذلیل ورسوا ہوئے اور اللہ نے حضرت ابراہیمکو کامیاب کیا۔سیدنا ابراہیم کی تعلیمات پوری بنی نوع انسانیت کےلیے مشعل راہ ہیں ۔ دین اسلام دین ابراہیم کی ہی دوسری شکل وتشریح ہے ۔ سیدنا ابراہیم اللہ تعالیٰ کے وہ بزرگ پیغمبر ہیں کہ ا سوۂ ابراہیمی پر عمل پیرا ہوکر قربانی کی سنت ادا کرتےہیں۔ کئی سیروسوانح نگاروں نے سیدنا ابراہیم کے قصص و واقعات کو اجمالاً وتفصیلاً قلم بند کیا ہے ۔ مولانامحمد رضی ندوی کی زیر نظر کتاب ’’ سیرت سیدنا ابراہیم ‘‘ حضرت ابراہیم ﷺ کی پُو نور سیرت کا دل آویز اور ایمان افروز تذکرہ پر مشتمل ایک مستند کتاب ہے ۔ فاضل مصنف نےاس کتاب میں سیدنا ابراہیمﷺ سے متعلق اٹھائے گئے کچھ اعتراضات وغلط فہمیوں کی تسلی وتشفی بھی کردی ہے ۔ مصنف نے اس کتاب میں حضرت ابراہیم کی شخصیت کا محض تاریخی مطالعہ نہیں پیش کیا بلکہ اس میں آپ کی دعوت اورپیغام کوسمجھانے کی کوشش کی ہے ۔
عناوین | صفحہ نمبر |
حرف تمنا :سیرت سیدناابراہیم اورہم | 7 |
پیش لفظ | 7 |
پہلا باب : عہد ابراہیم | |
سیدنا ابراہیم سے پہلے | 11 |
الف:قوم نوح | 11 |
ب: قوم عاد | 12 |
ج: قوم ثمود | 13 |
سیدنا ابراہیم کا عہد | 15 |
قوم ابراہیم | 16 |
الف: سیاسی حالات | 16 |
ب: تہذیب و تمدن | 18 |
ج: مذہبی صورت حالت | 20 |
د: معاشرت واخلاق | 24 |
دوسرا :حیات سیدنا ابراہیم | |
نام ونسب، آزر باپ یاچچا؟ | 26 |
خاندان…. ولادت | 27 |
بچپن | 28 |
بعثت | 32 |
اطمینان قلب کےلیے ایک درخواست | 33 |
دعوت ،باپ کودعوت | 37 |
قوم کو دعوت | 39 |
استدراج ، نیا انداز دعوت | 42 |
اتمام حجت | 47 |
بادشاہ سےمحاجہ | 49 |
معجزہ | 51 |
اعلان براءت | 52 |
قوم ابراہیم کا انجام | 54 |
ہجرت | 56 |
کنعان کی طرف ، سفر مصر | 57 |
کیا سیدہ ہاجرہ لونڈی تھیں؟ | 60 |
سیدنا اسماعیل کی ولادت | 63 |
آزمایشیں | 64 |
بےآب و گیاہ وادی میں | 65 |
واقعہ ذبح | 68 |
قربانی کی حقیقت | 69 |
ذییح کون ؟ | 72 |
ختنہ عہد الہٰی کا نشان | 75 |
ولادت اسحاق | 77 |
قوم لوط اور اس کا انجام | 80 |
جرہم کی آبادی | 85 |
سیدنا اسماعیل کی آل و اولاد | 85 |
خانہ کعبہ کی تعمیر ، تعمیر کعبہ سیدنا ابراہیم سے قبل | 91 |
تعمیر ابراہیمی | 93 |
حج کی منادی | 95 |
آخری ایام ،وفات حضرت سارہ ،وفات حضرت ہاجرہ | 98 |
دیگر ازواج و اولاد ،وفات حضرت ابراہیم | 99 |
تیسرا باب: ملت ابراہیم | |
ملت کا مفہوم | 101 |
ملت ابراہیمی کے بنیادی عناصر ،توحید | 107 |
رسالت | 111 |
آخرت | 112 |
نماز | 115 |
قربانی | 117 |
حج، ختنہ | 119 |
انفرادی ذمے داری،ملت ابراہیمی کے حاملین | 121 |
ملت ابراہیمی اورانبیائے بنی اسرائیل | 125 |
یہود کاملت ابراہیمی سے انحراف | 126 |
نصاریٰ اورملت ابراہیمی | 128 |
ملت ابراہیمی اور اسلام | 130 |
الف: اسلام اور ملت ابراہیمی دونوں کی روح ایک ہے | 131 |
ب: ملت ابراہیمی کے تمام عناصر اسلام میں باقی رکھے گئے ہیں | 134 |
ج: فریضہ حج | 136 |
د: آخرت میں جزا و سزا کا دارومدار انسان کے ذاتی اعمال پر ہے | 138 |
خاتم النبیین ملت ابراہیمی کے مجدد | 139 |
ملت ابراہیمی کی دعوت اسلام کی دعوت ہے | 141 |
چوتھا باب : اسوۂ سیدنا ابراہیم | |
شرک سے بےزاری ( حنیفیت ، | 145 |
کامل اطاعت الہٰی | 148 |
استغفار و انابت | 153 |
شکر | 154 |
دعا | 156 |
عبادت گزاری | 163 |
والدین کے ساتھ حسن سلوک | 165 |
مہمان نوازی | 168 |
حلم و بردباری | 171 |
صداقت شعاری | 174 |
پانچواں باب : سیرت ابراہیم :چند شبہات کاجائزہ | |
حضرت ابراہیم کی شخصیت کاانکار | 177 |
قرآن میں حضرت ابراہیم کی شخصیت کا ارتقاء | 180 |
حضرت ابراہیم کا اہل عرب اورخانہ کعبہ سےتعلق | 187 |
کتابیات | 195 |
ابراہیم کی پکار اسلام کی دعوت : حج کی منادی | 201 |
حج کی تیاری | 203 |
امامت کبریٰ.. … عالمگیر تحریک اسلام کا مرکز…. اسلام میں حج کی اہمیت | 205 |