سرمایہ تاریخ
مصنف : پروفیسر سعید اختر
صفحات: 159
تاریخ اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں ، فاتحوں اورمشاہیر کے احوال، گزرے ہوئے زمانہ کے بڑے اور عظیم الشان واقعات و حوادث، زمانہٴ گزشتہ کی معاشرت ، تمدن اور اخلاق وغیرہ سے واقفیت حاصل کی جاسکے۔ ۔تاریخ سے گزشتہ اقوام کے عروج و زوال ، تعمیر و تخریب کے احوال معلوم ہوتے ہیں، جس سے آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کا سامان میسر آتا ہے، حوصلہ بلند ہوتا ہے، دانائی و بصیرت حاصل ہوتی ہے اور دل و دماغ میں تازگی و نشو نما کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ زیر نظر کتاب’’سرمایۂ تاریخ‘‘ پرو فیسر سیعد اختر کی تصنیف ہے۔ مصنف نے کتاب ہذا میں برصغیر پاک وہند کے علمی سرمائے سے استفادہ کر کے ممتاز مؤرخوں اور سوانح نگاروں کے حالاتِ زندگی اور علمی خدمات کا ناقدانہ جائزہ پیش کیا ہے۔
عناوین | صفحہ نمبر |
تقریظ وتقدیم | 9تا16 |
محمد علی بن حامد کوفی | 19 |
حسن نظامی | 24 |
سدید الدین عوفی | 28 |
قاضی منہاج الدین سراج | 31 |
امیر خرو رحمہ اللہ | 35 |
ابنِ بطوطہ | 42 |
ضیاء الدین برفی | 48 |
علامہ شمس سراج عفیف | 54 |
فہرست مندرجات(الجزءالثانی) | |
محمد ظہیر الدین بابر | 61 |
غیاث الدین خواند امیر | 66 |
جوہر آفتابچی | 70 |
شہزادی گلبدن بیگم | 75 |
ابوالفضل | 79 |
ملّا احمد ٹھٹھوی (وغیرہ) | 86 |
شیخ عبدالقادر بدایونی | 90 |
محمد قاسم فرشتہ | 95 |
ملّا عبدالباقی | 100 |
نور الدین جہانگیر | 105 |
میرزامحمد شریف | 110 |
عبدالحمید لاہوری | 113 |
مولوی محمد صالح کنبوہ | 117 |
منشی محمد کاظم | 124 |
محمدساقی مستعد خان | 127 |
اورنگ زیب عالمگیر | 132 |
محمد ہاشم علی خان | 141 |
غلام حسین طباطبائی | 148 |
ضمیمہ | 153 |
مآخذ ومنابع | 155 |