سچائی کی جستجو
مصنف : ہارون یحییٰ
صفحات: 163
انسان کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا ہے اور تخلیق کرنے کے بعد اس کے ذمہ کچھ اہم ذمہ داریاں بھی ہیں اور مخلوق ہونے کے ناطے وہ ان ذمہ داریوں سے روگردانی نہیں کر سکتا۔وہ اپنی موجودگی کی اور کوئی توجیہ نہیں کرسکتا۔چونکہ وہ تخلیق کیا گیا ہے اس لیےاسے بے قابو اور غیر ذمہ دار حیثیت میں چھوڑا نہیں جا سکتا۔ انسان ان ذمہ داریوں سے آگاہی صرف اور صرف اللہ رب العزت کی کتاب سے ہی تلاش کر سکتا ہے اور تلاش کرنے کے بعد ان پر عمل کر سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں بھی قاری کو ان معاملات اور ذمہ داریوں کی قدر وقیمت معلوم کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے جن اس نے غیر اہم تصور کرتے ہوئے ایک طرف کر دیا ہے لیکن اصل میں وہ اس کی زندگی کے سب سے اہم مسائل ہیں۔اور اس کتاب میں قاری کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ غیر متعصب ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو جانے اور انہیں ادار کرے۔اس کتاب میں انسان کو اس بات کا شعور دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم کون ہیں؟یہاں کیوں آئے ہیں؟ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ہماری موجودہ زندگی کا کیا مقصد ہے؟وغیرہ۔ اور ہر بات کو ایک احسن مثال کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کتاب کو تین مختلف حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب’’سچائی کی جستجو‘‘ ڈاکٹر ہارون یحیٰی کی عظیم کاوش ہے اور اس کا ترجمہ ڈاکٹر فردوس روحی صاحب نے کیا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنفین کی خدماتِ دین کو قبول فرمائے اور ان کے لیے ذریعہ نجات بنائے اور عوام کے لیے نفع عام فرمائے (آمین)
عناوین | صفحہ نمبر | |
حصہ اول : ایک نئی دنیا | 5 | |
بنیادی سوالات | 10 | |
قرآن میں غور وفکر کرنا | 23 | |
دین جو قرآن میں بیان کیا گیا | 30 | |
سچے مومن اور بہروپیے | 33 | |
مومنین جیسا کہ قرآن میں بیان ہوئے | 38 | |
بے دین معاشرے کی اقدار | 69 | |
دنیا اور آخرت | 79 | |
جنت مومنین کا اصل گھر | 88 | |
جہنم کافروں کے لیے تیار شدہ | 95 | |
حصہ دوم : ایک نیا رخ | 103 | |
برقی اشاروں سے بنی ہوئی دنیا | 104 | |
دنیا ہمارے دماغ میں بناوٹ کی طرح | 106 | |
حقیقی بیرونی دنیا کی طرف راستہ ناپید | 107 | |
جانور مختلف انداز سے دیکھتے ہیں | 110 | |
مادے کی اصل حقیقت | 120 | |
کون ہے جو دیکھتا ہے | 125 | |
وقت کا نظریہ اضافت | 136 | |
حصہ سوئم : ہمارے گردو پیش میں معجزات | 143 | |
شہد کی مکھی | 145 | |
شہد کا معجزہ | 151 | |
اونٹ | 154 | |
مچھر | 158 | |
نصیحت قبول کرنے والے معاشرہ اور سمجھدار لوگوں کے لیے | 159 |