پردہ (مولانا مودودی)
مصنف : سید ابو الاعلی مودودی
صفحات: 304
اسلام دینِ فطر ت اور مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اس ضابطہ حیات میں ہر دو مرد وزن کی حفاظت وتکریم کے لیے ایسے قواعد مقرر کئے گئے ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے میں نہ کوئی دقت پیش آتی ہے نہ فطرت سلیم انہیں قبول کرنے میں گرانی محسوس کرتی ہے ۔اسلام باوقار زندگی گزارنے کادرس دیتا ہے۔ جس کے تحفظ کے لیے تعزیری قوانین نافذ کئے گئے ہیں تاکہ عزت نفس مجروح کرنے والوں کا محاسبہ ہوتا رہے ۔عورت کے لیے پردے کاشرعی حکم اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز اور قابل فخر دینی روایت ہے ۔اسلام نے عورت کو پردےکا حکم دے کر عزت وتکریم کے اعلیٰ ترین مقام پر لاکھڑا کیا ۔پردہ کاشرعی حکم معاشرہ کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور مردکی شہوانی کمزوریوں کا کافی وشافی علاج ہے ۔اس لیے دخترانِ اسلام کو پردہ کے سلسلے میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے فخریہ انداز میں اس حکم کو عام کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا کی خواتین اس کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے عورت پر پردہ فرض عین ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ا یک سے زیادہ جگہ پر آیا ہے اور کتبِ احادیث میں اس کی صراحت موجو د ہے ۔کئی اہل علم نے عربی واردو زبان میں پردہ کے موضوع پرمتعدد کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ پردہ‘‘ عالم ِاسلام کے معروف دانشور اور عظیم سکالر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی عورت کے تاریخی کردار پر عظیم الشان اور بے مثال تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے ایک صالح اور صحت مند معاشرے کی تعمیر میں پردے کی اہمیت ، پردے کے بارے میں صحیح اسلامی احکامات اور ان کی حدود،آزادنہ اختلاط مردوزن کے تباہ کن نتائج،قدیم اور جدید ادوار میں عورت کی اہمیت، مظلوم عورت پراسلام کے احسانات جیسے موضوعات پر بحث کرتے ہوئے مغرب کی انسانیت سوز اور آوارہ تہذیب کا حکیمانہ پوسٹ مارٹم کیا۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی ان بابصیرت اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے مغربی تہذیب کی تباہ کاریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرہ سے متنبہ کیا اور اس کو روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کوشش کی ۔مو صوف کی کتاب’’پردہ‘‘ آپ کی ان ہی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔عصر حاضر میں اس موضوع پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ’’پردہ‘‘ ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان پرزو استدلال او رحقائق سے لبریز تجزیہ اپنے اندر وہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر سے مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ یہی وجہ ہے پورے عالم اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کونصیب ہوئی ہے ۔مشرق وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔یہی حال اس کے اردو اورانگریزی ایڈیشن کا ہے ۔اس کتاب کی افادیت کی وجہ سے اکثر حضرات اس کتاب کو شادیوں کے موقع پر بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔
عناوین | صفحہ نمبر | |
الف۔ عرض ناشر | 8 | |
ب۔ دیپاچہ طبع اول | 10 | |
1۔نوعیت مسئلہ | 11 | |
2۔ عورت مختلف ادوار میں | 14 | |
1۔یونان | 14 | |
2۔روم | 17 | |
3۔ مسیحی یورپ | 20 | |
4۔ جدید یورپ | 22 | |
5۔نئی مغربی معاشرت کے تین ستون | 24 | |
6۔فکر انسانی کی المناک نارسائی | 28 | |
3۔ دور جدید کا مسلمان | 31 | |
1۔تاریخی پس منظر | 31 | |
2۔ ذہنی غلامی | 33 | |
3۔ مسئلہ حجاب کی ابتدا | 34 | |
4۔ اصلی محرکات | 35 | |
5۔ سب سے بڑا فریب | 36 | |
6۔ ہمارا پیش نظر کام | 39 | |
4۔نظریات | 41 | |
1۔ اٹھارہویں صدی کا تصور آزادی | 41 | |
2۔ انیسویں صدی کے تغیرات | 43 | |
3۔بیسوی صدی کی ترقیات | 50 | |
4۔ نومالتھوسی تحریک کا لٹریچر | 53 | |
5۔نتائج | 57 | |
1۔ صنعتی انقلاب اور اس کے اثرات | 57 | |
2۔ سرمایہ دارانہ خود غرضی | 58 | |
3۔ جمہوری نظام سیاست | 61 | |
4۔ حقائق و شواہد | 62 | |
5۔ اخلاقی حس کا تعطل | 63 | |
6۔ فواحش کی کثرت | 68 | |
7۔ شہوانیت اور بے حیائی کی وبا | 70 | |
8۔ قومی ہلاکت کے آثار | 75 | |
9۔ جسمانی قوتوں کا انحطاط | 77 | |
10۔خاندانی نظام کی بربادی | 78 | |
11۔نسل کشی | 80 | |
6۔چند اور مثالیں | 85 | |
1۔ امریکہ | 85 | |
(1)تعلیم کا مرحلہ | 87 | |
(2) تین زبردست محرکات | 89 | |
(3) فواحش کی کثرت | 90 | |
(4)امراض خبیثہ | 92 | |
(5) طلاق اور تفریق | 93 | |
(6) قومی خودکشی | 95 | |
2۔ انگلستان کی حالت | 97 | |
7۔فیصلہ کن سوال | 100 | |
1۔مشرقی مستغربین | 101 | |
2۔ نیا ادب | 102 | |
3۔ تمدن جدید | 108 | |
4۔ مستغربین سے فیصلہ | 110 | |
5۔ دوسرا گروہ | 111 | |
6۔ فیصلہ کن سوال | 113 | |
8۔قوانین فطرت | 117 | |
تمدن کی تخلیق میں صنفی کشش کا اثر | 118 | |
1۔ تمدن کا بنیادی مسئلہ | 121 | |
2۔ مدنیت صالحہ کے لوازم | 122 | |
(1)میلان صنفی کی تعدیل | 122 | |
(2) خاندان کی تاسیس | 126 | |
(3) صنفی آوارگی کا سدباب | 133 | |
3۔ زنا اور اجتماعی مظالم | 138 | |
4۔ انسداد فواحش کی تدابیر | 147 | |
5۔ تعلق زوجین کی صحیح صورت | 153 | |
9۔انسانی کوتاہیاں | 169 | |
1۔نارسائی کی حقیقی علت | 169 | |
2۔ چند نمایاں مثالیں | 170 | |
3۔ قانون اسلام کی شان اعتدال | 179 | |
10۔ اسلامی نظام معاشرت | 181 | |
1۔اساسی نظریات | 181 | |
(1)زوجیت کا اساسی مفہوم | 181 | |
(2)انسان کی حیوانی فطرت اور اس کے مقتضیات | 185 | |
(3) فطرت انسانی اور اس کے مقتضیات | 187 | |
2۔ اصول و ارکان | 193 | |
(1)محرمات | 193 | |
(2) حرمت زنا | 194 | |
(3)نکاح | 194 | |
(4)خاندان کی تنظیم | 197 | |
(5) مرد کی قوامیت | 198 | |
(6)عورت کا دائرہ عمل | 200 | |
(7)ضروری پابندیاں | 203 | |
(8) عورت کے حقوق | 206 | |
(9) معاشی حقوق | 207 | |
(10) تمدنی حقوق | 208 | |
(11) عورتوں کی تعلیم | 209 | |
(12) عورت کی اصل اٹھان | 210 | |
2۔تحفظات | 219 | |
(1)اصلاح باطن | 221 | |
1۔ حیا | 221 | |
2۔ دل کے چور | 223 | |
3۔ فتنہ نظر | 224 | |
4۔ جذبہ نمائش حسن | 225 | |
5۔ فتنہ زبان | 226 | |
فتنہ آواز | 227 | |
فتنہ خوشبو | 228 | |
فتنہ عربانی | 229 | |
(2) تعزیری قوانین | 231 | |
1۔ حد زنا | 232 | |
2۔ حد قذف | 235 | |
(3) انسدادی تدابیر | 236 | |
1۔ لباس اور ستر کے احکام | 237 | |
2۔ مردوں کے لیے ستر کے حدود | 239 | |
3۔ عورتوں کے لیے ستر کے حدود | 240 | |
4۔ استیذان | 243 | |
5۔ تخلیہ اورلمس کی ممانعت | 245 | |
6۔ محرموں اورغیر محرموں کے درمیان فرق | 247 | |
11۔ پردہ کے احکام | 249 | |
1۔ غض بصر | 251 | |
2۔ اظہار زینت کی ممانعت اور اس کے حدود | 257 | |
3۔ چہرے کا حکم | 267 | |
4۔ نقاب | 271 | |
12۔ باہر نکلنے کے قوانین | 278 | |
1۔حاجات کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت | 280 | |
2۔ مسجد میں آنے کی اجازت اور اس کے حدود | 281 | |
3۔ مسجد میں آنے کی شرائط | 284 | |
4۔ حج میں عورتوں کا طریقہ | 287 | |
5۔ جمعہ وعیدین میں عورتوں کی شرکت | 288 | |
6۔ زیارت قبور اور شرکت جنازات | 289 | |
7۔ جنگ میں عورتوں کی شرکت | 291 | |
13۔ خاتمہ | 295 | |