نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان

نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان

 

مصنف : سید میر حسین علی کرمانی

 

صفحات: 402

 

ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ (موجودہ کرناٹک) قائم کی۔ 20 سال تک بے مثال حکمرانی کے بعد نواب حیدر علی 1782 میں انتقال کرگئے اور یوں حیدر علی کے ہونہار جواں سال اور باہمت فرزند ٹیپوسلطان نے 1783 میں ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔دنیا کے نقشے میں ہندوستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہندوستان میں ریاست میسور ایک نقطے کے مساوی ہے اور اس نقطے برابر ریاست میں سولہ سال کی حکمرانی یا بادشاہت اس وسیع وعریض لامتناہی کائنات میں کوئی حیثیت و اہمیت نہیں رکھتی، مگر اسی چھوٹی اور کم عمر ریاست کے حکمران ٹیپوسلطان نے اپنے جذبے اور جرأت سے ایسی تاریخ رقم کی جو تاقیامت سنہری حروف کی طرح تابندہ و پایندہ رہے گی۔ ٹیپو کا یہ مختصر دور حکومت جنگ و جدل، انتظام و انصرام اور متعدد اصلاحی و تعمیری امور کی نذر ہوگیا لیکن اس کے باوجود جو وقت اور مہلت اسے ملی اس سے ٹیپو نے خوب خوب استفادہ کیا۔ٹیپوسلطان کو ورثے میں جنگیں، سازشیں، مسائل، داخلی دباؤ اور انگریزوں کا بے جا جبر و سلوک ملا تھا، جسے اس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اعلیٰ حوصلے سے قلیل عرصے میں نمٹالیا، اس نے امور سیاست و ریاست میں مختلف النوع تعمیری اور مثبت اصلاحات نافذ کیں۔ صنعتی، تعمیراتی، معاشرتی، زرعی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں اپنی ریاست کو خودکفیل بنادیا۔ فوجی انتظام و استحکام پر اس نے بھرپور توجہ دی۔ فوج کو منظم کیا، نئے فوجی قوانین اور ضابطے رائج کیے، اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے، جن میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت اسلحہ اور پہلی بار راکٹ بھی تیار کیے گئے۔اور اس نے بحریہ کے قیام اور اس کے فروغ پر زور دیا، نئے بحری اڈے قائم کیے، بحری چوکیاں بنائیں، بحری جہازوں کی تیاری کے مراکز قائم کیے، فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی فوج کو جدید خطوط پر آراستہ کیا، سمندری راستے سے تجارت کو فروغ بھی اس کے عہد میں ملا۔ ٹیپوسلطان جانتا تھا کہ بیرونی دنیا سے رابطہ ازبس ضروری ہے اسی لیے اس نے فرانس کے نپولین بوناپارٹ کے علاوہ عرب ممالک، مسقط، افغانستان، ایران اور ترکی وغیرہ سے رابطہ قائم کیا۔ٹیپو نے امن و امان کی برقراری، قانون کی بالادستی اور احترام کا نظام نہ صرف روشناس کرایا بلکہ سختی سے اس پرعملدرآمد بھی کروایا، جس سے رعایا کو چین و سکون اور ریاست کے استحکام میں مدد ملی۔ٹیپوسلطان کا یہ قول کہ ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘ غیرت مند اور حمیت پسندوں کے لیے قیامت تک مشعل راہ بنا رہے گا۔ ٹیپو سلطان اوائل عمر سے بہادر، حوصلہ مند اور جنگجویانہ صلاحیتوں کا حامل بہترین شہ سوار اور شمشیر زن تھا۔ علمی، ادبی صلاحیت، مذہب سے لگاؤ، ذہانت، حکمت عملی اور دور اندیشی کی خصوصیات نے اس کی شخصیت میں چار چاند لگادیے تھے، وہ ایک نیک، سچا، مخلص اور مہربان طبیعت ایسا مسلمان بادشاہ تھا جو محلوں اور ایوانوں کے بجائے رزم گاہ میں زیادہ نظر آتا تھا۔ وہ عالموں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی قدر ومنزلت کرتا تھا، مطالعے اور اچھی کتابوں کا شوقین تھا، اس کی ذاتی لائبریری میں لا تعداد نایاب کتابیں موجود تھیں، ٹیپوسلطان وہ پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے اردو زبان کو باقاعدہ فروغ دیا اور دنیا کا سب سے پہلا اور فوجی اخبار جاری کیا تھا۔اس کے عہد میں اہم موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں ۔ زیر نظرکتاب ’’ نشان حیدری ‘‘سید میر حسین علی کرمانی کی تصنیف ہے مصنف خود سلطان شہید کی ملازمت میں رہا اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سارے واقعات گزرے ہیں جو اس مختصر عرصہ میں پیش آئے ان واقعات کو مصنف نے بلا کسی رنگ آمیزی کے اس کتاب میں قلم بند کردیا ہے ۔یہ کتاب ٹیپو سلطان کی شہادت کے آٹھ سال بعد لکھی گئی یہ کتاب حیدرعلی خاں اور ٹیپو سلطان کی متعلق سب سے پہلی مستند کتاب ہے اصل کتاب فارسی زبان میں تھی 1960ء میں محمود احمد فاروقی نے تاریخ ٹیپو سلطان کےنا م سے اس کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کیااس کتاب میں ہندوستانی شہزادے ٹیپوسلطان کے تذکرہ پیش کیا گیا ہے ۔ جس نے انگریزوں کے خلاف گراں قدر مزاحمت سرانجام دی۔ اس کی شدید مزاحمت سے انگریز بوکھلا گئے تھے ۔اللہ تعالیٰ موجود ہ حکمرانوں میں ٹیپو سلطان جیسی بہادر ی او رجذبۂ جہاد پیدا فرمائے (آمین)

 

عناوین صفحہ نمبر
پیش لفظ 16
باب 1
سلطان شہید کے آباؤاجداد 23
شیخ محمد علی 24
فتح محمد کے کارنامے 27
حیدرعلی کی پیدائش 30
بالالپور کی لڑائی 31
فتح محمدکی شہادت 32
نقارہ کی قید 33
شہباز صاحب 35
پالیکار یسور 35
حیدرصاحب کی وفات 36
باب 2
حیدرعلی خاں بہادر 37
پایان گھاٹ کی مہم 38
ٹیپومستان ولی 39
ٹیپو سلطان کی ولادت 39
کرنا ٹک کی مہم 40
1165ء کے واقعات 41
ترچنا پلی کامعرکہ 42
نندراج کی ناکامی 45
مرہٹوں کاحملہ 46
نندراج کی پریشانیاں 47
دارالسلطنت کوواپسی 49
فوج کی سپہ سالاری 51
باب 3
مرہٹوں کی شکست 52
مرہٹوں کا فرار 53
پانی پت کاسانحہ 54
جمعداروں کی سرکشی 54
قلعہ بنگلور پر قبضہ 55
باب 4
نندراج کی سبکددشی 58
فرانسیسیوں کی مدد 60
اسد خاں کی بہادری 60
بارہ محل اورپھلچیری کےواقعات 61
باب 5
کھنڈی راؤ زنا دار کی شورش 63
حیدرعلی خاں دشمنوں کے زخہ میں 64
بنگلور کو خفیہ روانگی 66
مرہبہ فوج کی آمد 67
نندراج سےسلسلہ جنبانی 68
مرہٹوں کےنام نندراج کاخط 69
مرہٹوں کی واپسی 70
زنار دار کا فرار 71
زناردار کی شکست 71
پائیہ تخت کی طرف کوچ 72
باب 6
حیدرعلی خاں کی خود مختاری 74
نظم ونسق کی بحالی 75
نندراج کی واپسی 76
چند دن بنگلور میں 76
باب 7
صوبہ سرااور بالاپور کی تسخیر 78
بسالت جنگ کی فوج کشی 78
صوبہ سراپر تسلط 80
نواب بہادر کا خطاب 81
بالالبور پر فوج کشی 83
قلعہ بالالپور کامحاصرہ 83
مرار راؤ کی فتنہ انگیزی 84
قلعہ پر قبضہ 85
کوہ مٹرک سرا پر لشکر کشی 87
کوہ نندی کی فتح 87
باب 8
بدنور کی فتح 88
جنت ارضی 88
بدنورکی رانی 89
چیتل ورک پر قبضہ 89
بدنور پر فوج کشی 90
نگرکی طرف پیش قدمی 90
قلعہ نگرکامحاصرہ 91
رانی بدنور کی بہادری 91
خطرناک اقدام 92
حیدرنگر 93
باب 9
افغانوں کی شورش 94
سورائی ورگ کی مہم 95
رائے ورگ کی فتح 95

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
14.9 MB ڈاؤن لوڈ سائز

آزادیاردواسلامتاریختجارتترجمہترکیجہادچاندحقحکمتحیدر علیدہلیزبانسیاستشہادتعربفارسیقانونقوانینقیامتکائناتمذہبمسلماننظرہندوستانواقعات
Comments (0)
Add Comment