موسیقی اور قرآن و حدیث
قرآن موسیقی کے موضوع پر مکمل خاموش ہے ، جو لوگ لہو الحدیث کو موسیقی کی حرمت میں گھسیڑتے ہیں ،یہ ان کا ذاتی تقوی اور تاویل ہے جو شریعت نہیں ہو سکتی ۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اسلام میں مقدسوں اور قدسیوں کے ذاتی تقوے اور تاویلوں کی بھرمار ہے جو انہوں نے اپنے ماحول اور اپنے مزاج کے مطابق کی ہیں ،اور جن کو ماننا شریعت کا تقاضا نہیں ” تقدس ” کا تقاضا ہے، جو ان شخصیات کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ،، پیر کرم شاہ الازھری صاحب نے اپنی تفسیر ضیاء القرآن میں اس کو مباح ہی لکھا ہے اور تمام تاویلوں کو رد کر دیا ہے ،، اس کے ساتھ یہ وضاحت ضرور کی ہے کہ ہر وقت موسیقی کو وطیرہ بنا لینا بھی درست نہیں کیونکہ کسی بھی شغل کو غالب کر لینا اور اس میں افراط مناسب و معقول نہیں ،، ہم لوگ پہلے ایک عقیدہ بناتے ہیں پھر قرآن و حدیث جو کھینچ کھانچ کر اس پر چڑھاتے ہیں ، یعنی اصل میں اپنی ہی رائے کو قرآن و حدیث کا لباس پہنانے کی کوشش کرتے ہیں ،،،، لہو الحدیث گانا ہی کیوں ؟ پوری زندگی بھی لہو و لعب ہے ،، انما الحیوۃ الدنیا لھو ولعب ، اولاد اور مال بھی لہو و لعب ہے ،، جو چیز اللہ کی یاد سے غافل اور اس کی حدیں توڑنے پر آمادہ کر دے وہ لہو و لعب ہی ہے ،، پھر اس لھو لعب میں سے گانا برآمد کر لینا بزرگوں کا ہی کمال ھے ، ویسے سچی بات بتاؤں یہ بزرگ اپنے زمانے میں انسان ہی ہوا کرتے تھے پھر ہم نے ان کو دیوتا بنا دیا ، ان کی نجات بھی اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت میں تھی ، وہ کبھی بھی شریعت ساز نہیں تھے ،، ان کے اقوال کے متوازی انہی کے زمانے کے بزرگوں کے اقوال بھی پائے جاتے ہیں ، اس لئے شریعت تاویلوں کا نام نہیں یہ ایک روز روشن کی طرح کی چیز ہے ،جس کا تعارف اللہ کے رسول ﷺ نے ان لازوال الفاظ کے ساتھ فرمایا تھا ” ترکتکم علی المحجۃ البیضاء لیلھا کنھارھا “میں تمہیں اس سفید چٹیل گزر گاہ پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی راتیں بھی اتنی ہی روشن ہیں جتنا اس کا دن روشن ہے ” یا جو رات میں بھی اتنی ہی روشن ہے جتنی دن میں روشن ہوتی ہے ،،
رہ گئی بیہودہ اور فحاشی پر مبنی موسیقی تو یہ ” ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشہ فی الذین امنوا ،، کے تحت حرام سے بھی آگے کی چیز ہے اور اس کی حمایت کوئی بھی ذی شعور اور صاحب ایمان نہیں کر سکتا۔
موسیقی میں جائز اور ناجائز کا سوال ضرور ہے کہ کونسی جائز ہے اور کونسی ناجائز !
حرام حرام کی رَٹ لگانے والوں سے گزارش ہے کہ قاسم بن محمد بن ابوبکر سے جب پوچھا گیا تھا کہ کیا موسیقی حرام ہے ، تو آپ نے تین بار سوال کرنے والے سے منہ موڑ لیا تھا اور چوتھی دفعہ سوال کرنے کے بعد انتہائی غصے سے فرمایا تھا کہ ” حرام وہی ہے جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حرام کے لفظ کے ساتھ حرام کہا ہے ” اس کے بعد جائز ، ناجائز ، مکروہ باقی رہ جاتا ہے ،،،،،،
ہر بندہ اپنے اپنے تقوے کو دوسرے پر لادنے کے لئے تیار بیٹھا ہوتا ہے ،، نتیجہ یہ ہے کہ فاسقوں کی تعداد مساجد کی تعداد کی نسبت دگنی رفتار سے بڑھ رہی ہے ،، میں نے ریاض الجنہ میں لوگوں سے گانے کی ٹون سنی ہے ،، مسجدِ نبوی میں امام کے بالکل پیچھے کھڑے لوگوں کے موبائل پہ بج رہی ہوتی ہے ،، طواف اور سعی میں بج رہی ہوتی ہے ،، ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی چیز کو فتوؤں سے نہیں روکا جا سکتا ، پہلا اس کی کلاسیفیکیشن کرنی ہو گی ،، کیا بارش میں سڑکوں پر بہتا گٹر کا پانی بھی کپڑے پلید نہیں کرتا اور لوگوں کی بے بسی کے مدنظر اس چھوٹ کو اختیار کیا گیا ہے ،، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب سڑکوں پر بہتا بارش کا پانی پینا بھی شروع کر دیا جائے ،،،،،،،،،،
کتاب الکبائر ،، علامہ دمشقی صاحب کی ایسی کتاب ہے جس میں ساٹھ سے اوپر کبائر گنوائے گئے ہیں ،، مگر عجیب بات یہ ہے کہ کبائر کی فہرست میں موسیقی کا ذکر نہیں ہے ،،،،،،،، کوئی اس کو قرآن کی سورہ لقمان کی آیت سے نکال کر لے آتا ہے ،، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ( 6)
حالانکہ اس میں موسیقی سرے سے زیرِ بحث نہیں ہے ،،مروجہ موسیقی کو بنیاد بنا کر تمام موسیقی کو ایک ہی لاٹھی سے ھانکنا اسی طرح ہے جس طرح موجودہ مسلمانوں کو دیکھ کر تمام مسلمانوں کے قتل کا فتوی دے دینا ،، جتنی احادیث موسیقی کی مخالفت میں پیش کی جاتی ہیں ، اس سے دگنی حدیثیں موسیقی کے جواز کی بھی موجود ہیں ،، جو چیز نبی ﷺ کی موجودگی میں بجائی گئی ، نبی ﷺ کے حجرے میں بجائی گئی، نبئ کریم ﷺ نے سکون سے اسے سنا اور ابوبکر صدیقؓ کے منع کرنے پر ان کو شاباش نہیں دی کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا بلکہ فرمایا کہ ان کو گانے دو ان کی عید کا دن ہے، فتوے لگانے والے پہلے اپنے فتوؤں کا رخ نبئ کریمﷺ کے حجرے کی طرف کریں اور جواب دیں کہ وہ کونسا حرام ہے جو عید والے دن حلال ہو جاتا ہے , اُس زمانے کی موسیقی کو حلال کہہ کر موجودہ زمانے کی موسیقی کو حرام کہنا ایسا ہی ہے جیسے موجودہ زمانے میں جی ٹو اور جی تھری سے زیرِ ناف بال صاف کرنے کو حرام قرار دے دیا جائے کیونکہ حضور ﷺ کے زمانے میں یہ استعمال نہیں ہوتے تھے ، بلکہ صرف استرا استعمال ہوتا تھا ،،، اب رہ گئی بات احادیث کی تو منظور الحسن صاحب کا یہ مضمون ان احادیث کا احاطہ کرتا ھے کہ جن میں موسیقی زیرِ بحث آئی ہے ،،
احادیث اورموسیقی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موسیقی عرب معاشرت کا حصہ تھی۔ عبادت، خوشی، غم ، جنگ اور تفریح جیسے مختلف مواقع پر موسیقی اور آلات موسیقی کا استعمال عام تھا۔حدیثوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف موسیقی کو پسند فرمایا، بلکہ بعض موقعوں پر اس کے استعمال کی ترغیب بھی دی۔ثقہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گانا سنا؛ شادی کےموقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے کی ترغیب دی؛ہجرت کے بعد آپ مدینہ تشریف لائے توعورتوں نے دف بجا کر گیت گائے اور آپ نے انھیں پسند فرمایا؛ ماہر فن مغنیہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپناگانا سنانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے سیدہ عائشہ کو اس کا گانا سنوایا؛ سیدہ عائشہ حضور کے شانے پر سر رکھ کر بہت دیر تک گانا سنتی اور رقص دیکھتی رہیں؛ سفروں میں آپ نے صحرائی نغموں کی معروف قسم حدی خوانی کو نہ صرف پسند فرمایا، بلکہ اپنے اونٹوں کے لیے ایک خوش آواز حدی خوان بھی مقرر کیا اور اعلان نکاح کے لیے آپ نے آلۂ موسیقی دف بجانے کی تاکید فرمائی۔ان موضوعات پر متعدد روایتیں حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ چند نمائندہ روایتیں حسب ذیل ہیں:
عید پرموسیقی
عن عائشۃ قالت: دخل علي رسول اللّٰہصلی اللّٰہ علیہ وسلم و عندی جاریتان تغنیان بغناء بعاث فاضطجع علی الفراش وحولوجھہ ودخل ابوبکر
فانتھرنی وقال مزمارۃ الشیطان عند النبی فاقبل علیہ رسول اللّٰہعلیہ السلام فقال دعھما فلما غفل غمزتھما فخرجتا وکان یوم عید.(بخاری، رقم ۹۰۷)
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر دو(مغنیہ ) لونڈیاں جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ بسترپر دراز ہو گئے او ر اپنا رخ دوسری جانب کر لیا۔(اسی اثنا میں) حضرت ابوبکر گھرمیں داخل ہوئے۔ (گانے والیوں کو دیکھ کر ) انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا:نبی صلیاللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ شیطانی ساز(کیوں)؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: انھیں (گانا بجانا)کرنے دو۔ پھر جب حضرت ابوبکر دوسرےکام میں مشغول ہو گئے تو میں نے ان( گانے والیوں کو چلے جانے کا) اشارہ کیا تو وہ چلی گئیں۔ یہ عید کا دن تھا۔‘‘ ۲
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
oام المومنین سیدہ عائشہ عید کے روز گیت سن رہی تھیں۔
oیہ گیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گائے جا رہے تھے ۔
oگانے والیاں ماہر فن مغنیات تھیں۔ ۳
oگیت کے اشعار حمدیہ یا نعتیہ نہیں تھے۔ انصار کی قبل از اسلام جنگ کا ایک قصہ تھاجسے گیت کی صورت میں گایا جا رہا تھا۔
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تشریف لانے کے بعد بھی سیدہ نے گیت سننے کاسلسلہ جاری رکھا۔
oآپ نے سیدہ عائشہ کو گانا سننے سے منع نہیں فرمایا۔
oآپ نے گانے والیوں کوگانا گانے سے نہیں روکا۔
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم خود گانے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ، تاہم جس طرح آپ نےسیدنا ابوبکر کی آواز سن لی، اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو گانے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔
oسیدنا ابوبکر نے اسے دیکھتے ہی ’مزمار الشیطان‘ یعنی شیطان کا سازکے الفاظ سےتعبیر کیا۔
oسیدنا ابوبکر نے جب گانے کوروک دیناچاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منعفرما دیا ۔
بخاری کی اس روایت سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے موقع پر موسیقی کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے۔ام المومنین سیدہ عائشہ کاآپ کی موجودگی میں گانا سننا ، آپ کااس پرنہ پابندی عائد کرنا اور نہ کسی ناراضی کااظہار فرمانا، بلکہ سیدنا ابوبکر کو بھی مداخلت سے روک دینا، یہ سب باتیں موسیقی کے مباح ہونے ہی کو بیان کر رہی ہیں۔
اسی موضوع کی ایک روایت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے حوالے سے المعجم الکبیر میں نقل ہوئی ہے۔ وہ بیان فرماتی ہیں:
دخلت علینا جاریۃ لحسان بن ثابت یوم فطر ناشرۃ شعرھا معھا دف تغنی فزجرتھا ام سلمۃ فقال النبی دعیھا یا ام سلمۃ فان لکل قوم عیدا وھذا یوم عیدنا. ( رقم ۵۵۸)
’’عید الفطر کے دن حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی ہمارے پاس آئی۔ اس کےبال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے پاس دف تھا اور وہ گیت گا رہی تھی۔ سیدہ ام سلمہ نے اسےڈانٹا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام سلمہ اسے چھوڑ دو۔ بے شک ہرقوم کی عید ہوتی ہے اور آج کے دن ہماری عید ہے۔‘‘
شادی بیاہ پرموسیقی
عن ابن عباس قال انکحت عائشۃ ذات قرابۃ لھا من الانصار فجاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال أھدیتم الفتاۃقالوا نعم قال ارسلتم معھا من یغنی قالت لا فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہوسلم: ان الانصار قوم فیھم غزل فلو بعثتم معھا من یقول:
اتیناکم اتیناکم
فحیانا وحیاکم. (ابن ماجہ، رقم۱۹۰۰)
’’حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ نے انصار میں سے اپنی ایک عزیزہ کانکاح کیا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لائے۔ آپ نے (لوگوںسے )دریافت کیا : کیا تم نے لڑکی کو رخصت کر دیا ہے؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ آپ نےپوچھا:کیا اس کے ساتھ کوئی گانے والا بھی بھیجاہے؟ سیدہ عائشہ نے کہا: جی نہیں ۔آپ نے فرمایا: انصار گانا پسند کرتے ہیں۔ یہ بہتر ہوتا کہ تم اس کے ساتھ کسی گانےوالے کو بھیجتے جویہ گیت گاتا: ۴
ہم تمھارے پاس آئے ہیں،
ہم تمھارے پاس آئے ہیں۔
ہم بھی سلامت رہیں، تم بھی سلامت رہو۔‘‘ ۵
اس روایت سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں:
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے والے کو بھیجنے کے بارے میں جس انداز سے دریافت فرمایا ، اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اہل عرب رخصتی کے موقع پر دلہن کے ساتھ بالعموم کسی گانے والے کو بھیجا کرتے تھے۔
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جان کر کہ گانے والے کو دلہن کے ہم راہ نہیں بھیجاگیا، خوش گوارتاثر کا اظہار نہیں فرمایا۔
oآپ نے شادی کے موقع پر گانے والے کو دلہن کے ہم راہ بھیجنے کی ترغیب دی۔
oآپ نے گائے بغیر گیت کے بول بھی ادا فرمائے۔
oآپ نے انصارکے گانا پسندکرنے کو بیان فرمایااور اسے باطل قرار نہیں دیا۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیتوں کو پسند فرماتے تھے۔اس کے بعض دوسرے طرق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو اس بنا پر فرمائی کہ آپ کو شادی والے گھر میں گانے کی کوئی آواز سنائی نہ دی۔ ابن حبان کی روایت ہے:
عن عائشۃ قالت کان فی حجری جاریۃ من الانصار فزوجتھا قالت فدخل علي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم عرسھا فلم یسمع غناء ولا لعبا فقال یا عائشۃ ھل غنیتم علیھا او لا تغنون علیھا ثم قال ان ھذاالحی من الانصار یحبون الغناء. (رقم ۵۸۷۵)
’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں: میرے زیر کفالت ایک انصاری لڑکی رہتی تھی۔ میں نے اس کی شادی کر دی۔ شادی کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر آپ نے نہ کوئی گیت سنا اور نہ کوئی کھیل دیکھا۔ (یہ صورت حال دیکھ کر) آپ نےفرمایا: عائشہ، کیا تم لوگوں نے اسے گانا سنایا ہے یا نہیں؟ پھر فرمایا: یہاں انصارکا قبیلہ ہے جو گانا پسند کرتے ہیں۔ ‘‘
جشن پرموسیقی
۱۔ عن ابن عائشۃ لما قدم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینہ جعل النساء و الصبیان یقلن:
طلع البدر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعا للّٰہ داع
ایھا المبعوث فینا
جئت بالامر المطاع
(السیرۃ الحلبیۃ۲/۲۳۵)
۲۔ عن انس بن مالک ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرببعض المدینۃ فاذا ھو بجوار یضربن بدفھن و یتغنین و یقلن:
نحن جوار من بني النجار
یا حبذا محمد من جار
فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:اللّٰہ یعلم انی لأ حبکن.(ابن ماجہ ، رقم ۱۸۹۹)
۱۔ ’’ابن عائشہ سے روایت ہے :جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو عورتوں اور بچوں نے یہ گیت گایا:
آج ہمارے گھرمیں وداع کے ٹیلوں سے چاند طلوع ہوا ہے ۔
ہم پر شکر اس وقت تک واجب ہے، جب تک اللہ کو پکارنے والے اسے پکاریں۔
اے نبی ، آپ ہمارے پاس ایسا دین لائے ہیں جو لائق اطاعت ہے ۔ ‘‘
۲۔ ’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :(شہر میں داخل ہونے کے بعد جب )نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی ایک گلی سے گزرے توکچھ باندیاں دف بجا کر یہ گیت گارہی تھیں:
ہم بنی نجار کی باندیاں ہیں۔۶
خوشا نصیب کہ آج محمد ہمارے ہمسائے بنے ہیں۔
( یہ سن کر)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جانتا ہے کہ میں تم لوگوں سےمحبت رکھتا ہوں ۔ ‘‘ ۷
یہ اس موقع کی روایات ہیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے موقع پر جشن کا سا سماں تھا۔
oخوشی کے اظہار کے لیے گیت گائے گئے۔
oیہ گیت لونڈیوں نے گائے۔
oگانے کے ساتھ انھوں نے ایک آلۂ موسیقی دف بھی استعمال کیا۔
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے گیت سنے اور ناپسندیدگی کا تاثر نہیں دیا۔
oگانے والی باندیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت ومحبت کا اظہار فرمایا۔
یہ اور اس موضوع کی دوسری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تو اہل مدینہ نے آپ کا فقید المثال استقبال کیا۔مدینے میں جشن برپا تھا۔ ہر چھوٹا بڑا آپ کی آمد کی خوشی میں مسرور تھا۔ اس موقع پر عام عورتوں اوربچوں اور مغنیات نے دف بجا کر استقبالیہ نغمے بھی گائے ، جنھیں نبی صلی اللہ علیہوسلم نے پسند فرمایا۔ چنانچہ ان کی بنا پر یہ بات پورے اطمینان سے کہی جا سکتی ہےکہ جشن یاخوشی کی تقریب کے موقع پر گیت گائے جا سکتے ہیں اور آلات موسیقی کواستعمال کیا جا سکتا ہے۔
سفر میں موسیقی
عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللّٰہ عنہ قال خرجنا مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی خیبر فسرنا لیلا فقال رجل من القوم لعامریا عامر الا تسمعنا من ھنیھاتک وکان عامر رجلا شاعرا حداء فنزل یحدو بالقوم یقول:
اللھم لو لا انت ما اھتدینا
ولا تصدقنا ولا صلینا
فاغفر فداء لک ما ابقینا
وثبت الاقدام ان لاقینا
والقین سکینۃ علینا
انا اذا صیح بنا ابینا
وبالصیاح عولوا علینا
فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ھذا السائق؟ قالوا: عامر بن الاکواع. قال: یرحمہ اللّٰہ. (بخاری ،رقم
۳۹۶۰)
’’ سلمہ بن الاکواع سے روایت ہے کہ ہم رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے عامر سے کہا: تم ہمیں اپنے شعرکیوں نہیں سناتے؟ عامر جو حدی خوان شاعر تھے،(لوگوں کی فرمایش سن کر) سواری سےاترے اور یہ (اشعار) گانے لگے :
اے پروردگار ، اگر تیری ہدایت ہمیں میسر نہ ہوتی
تو ہم نماز اور زکوٰۃ ادا نہ کر پاتے ۔
ہمارے گناہوں کو بخش دے ، (جو ہم کر چکے ہیں اور) جو ہم سے سرزد ہوں گے ، ہم تیری راہ میں قربان ہونے کے لیے تیار ہیں ۔
جنگ میں ہمیں ثابت قدمی عطا فرما ۔
اور ہم پر اپنی رحمت نازل فرما ۔
جب دشمن ہمیں للکارتا ہے تو ہم (خوف زدہ ہونے سے) انکار کر دیتے ہیں۔
وہ پکار پکار کر ہم سے نجات چاہتے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ گانے والا کون ہے؟ لوگوں نے کہا: عامر بن الاکواع۔ آپ نے فرمایا: اللہ اس پر رحم کرے۔ ‘‘ ۸
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
oصحابۂ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کے مقصد سے دوران سفر میں تھے۔
oایک صحابی کی فرمایش پر دوسرے صحابی نے حدی خوانی شروع کی یعنی ا شعار گا کر پڑھنےلگے۔
oگانے والے کی آواز اس قدر بلند تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچی۔
oآپ نے پسندیدگی کے ساتھ گانے والے کا نام معلوم کیا ۔
oاس کے اچھے اشعار سن کر آپ نے اس کے لیے رحمت کی دعا فرمائی۔
’’حدی خوانی‘‘صحرائی نغمے کی ایک صنف ہے۔ قدیم عرب میں ساربان صحراؤں میں سفر کرتےہوئے حدی خوانی کرتے تھے۔اس کا اصل مقصد تو اونٹوں کو مست کر کے انھیں تیز رفتاری کی طرف مائل کرنا ہوتا تھا، مگر شتر سوار بھی اس سے پوری طرح حظ اٹھایا کرتے تھے۔اس کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں متعدد روایتیں موجود ہیں ۔ ان سے معلوم ہوتا ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام بھی صحرائی سفروں کے دوران میں حدی خوانی سے محظوظ ہوتے تھے۔
بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت خوش آوازحدی خوان انجشہ کو اپنے سفروں کے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ ایک سفر کے دوران میں جب اس کے نغمات سے مسرور ہو کر اونٹ بہت تیز چلنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے محبت سے ڈانٹا کہ وہ اونٹوں پر سوار خواتین کا لحاظ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اونٹوں کی تیز رفتاری کی وجہ سے گر جائیں۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کان للنبی حاد یقال لہ انجشۃ و کان حسن الصوت فقال لہ النبی رویدک یا انجشۃ لا تکسر القواریر قال قتادۃ یعنی ضعفۃالنساء. ( بخاری ، رقم ۵۸۵۷)
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حدی خوان مقرر تھا۔ اس کا نام انجشہ تھا۔ وہ نہایت خوش آواز تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سفر کے دوران میں اسے)فرمایا: انجشہ آہستہ، کہیں نازک آبگینوں کو توڑ نہ ڈالنا۔ قتادۃکہتے ہیں: اس سےنازک عورتیں مراد ہیں۔‘‘
یہاں یہ واضح رہے کہ محققین کے نزدیک حدی خوانی عرب کی اصناف موسیقی ہی میں شامل ہے۔ ڈاکٹر جواد علی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘ ‘میں اس کا ذکراسی پہلو سے کیا ہے:
والحدا، ھو من اقدم انواع الغناء عندالعرب، یغنی بہ فی الاسفار خاصۃ، ولا زال علی مکانتہ و مقامہ فی البادیۃ حتی الیوم. و یتغنی بہ فی المناسبات المحزنۃ ایضاً لملاء مۃ نغمتہ مع الحزن. وقد کان للرسول حادی ھو (البراء بن مالک بن النضر الانصاری) وکان حداءً للرجال. وکان لہ حداء آخر، یقال لہ (انجشۃ الحادی) وکان جمیل الصوت اسود، وکان یحدو للنساء ، نساءالنبی ، وکان غلاماً للرسول.(۵/ ۱۱۶)
’’حدی خوانی عربوں کے گانے کی قدیم ترین قسموں میں سے ہے۔ یہ صنف بالعموم سفروں کےساتھ مخصوص تھی۔ موجودہ زمانے میں بھی صحراؤں میں اس کی یہی حیثیت ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ اس کے نغمے جذبات غم کے ساتھ کافی ہم آہنگ ہوتے ہیں، اس لیے غم کے مواقع پربھی یہ صنف اختیار کی جاتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدی خوان ( البرابن مالک بن نضر) مقرر کر رکھا تھاجو مردوں کے لیے حدی خوانی کرتا تھا۔ ایک اور نہایت خوش گلو حدی خوان(انجشہ) تھا۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام تھااور آپ کی ازواج مطہرات کے لیے حدی خوانی کرتا تھا ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
والحدا ھو فی الواقع غناء اھلالبادیۃ، … ھذا النوع من الغناء مما یتناسب مع لحن البوادی و نغمھا الحزینۃالبسیطۃ التی تطرب بہا طبیعۃ البداوۃ نفس الاعراب. (۵/ ۱۱۷)
’’حدی خوانی اصل میں اہل بادیہ کا گانا ہے … گانے کی یہ صنف خانہ بدوشوں کے لحناور ان کے جذبات غم کی تعبیر کرنے والے سادہ اور فطری نغموں سے مناسبت رکھتی ہے جنسے ان خانہ بدوشوں کی بدوی طبیعت مسرور ہوتی ہے۔‘‘
ابن خلدون نے اپنی کتاب ’’مقدمہ‘‘ میں لکھا ہے کہ حدی خوانی کا مقصد محض قافلے کے شرکا کو محظوظ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اسکے ساتھ اونٹوں کو نغموں سے سرشار کر کے ان کی رفتار کو تیز کرنا بھی ہوتا ہے:
’’(مسرور ہونے کی) یہ کیفیت انسان تو انسان بے زبان جانور میں بھی پائی جاتی ہے۔چنانچہ اونٹ ساربانوں کی حدی خوانی سے اور گھوڑے سیٹی اور چیخ سے متاثر ہو جاتےہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ اگر نغمات متناسب اور فن موسیقی کے موافق ہوں توان سے جانور مست ہو جاتے ہیں۔‘‘ (۲/ ۸۰)
آلات موسیقی
عن الربیع بنت معوذ قالت دخل عليالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم غداۃ بنی علي فجلس علی فراشی کمجلسک منی وجویریاتی ضربن بالدف و یندبن من قتل من اباءھن یوم بدر حتی قالت جاریۃ و فینا نبی یعلم مافی غد فقال النبی لا تقولی ھکذا وقولی ما کنت تقولین. (بخاری، رقم۳۷۷۹)
’’ربیع بنت معوذبیان کرتی ہیں: جب میری رخصتی ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور میرے بچھونے پر اسی طرح بیٹھے جس طرح تم میرے سامنےبیٹھے ہو ۔ اس وقت ہماری (گانے والی ) باندیاں دف پر بدر میں قتل ہونے والے اپنےآبا کا نوحہ (اشعار کی صورت میں) گا رہی تھیں۔ ان میں سے ایک باندی نے (گاتے ہوئے)کہا : اس وقت ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جنھیں آنے والے دنوں کی باتیں بھی معلوم ہیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (مصرع) نہ کہو ، وہی کہوجو پہلے کہہ رہی تھی۔‘‘ ۹
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم شادی کی کسی تقریب میں گئے تو باندیاں گیت گا رہی تھیں۔
oآپ کی آمد کے باوجود گانے کا سلسلہ جاری رہا۔
oگانے والیاں گانے میں دف استعمال کر رہی تھیں۔
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم توجہ سے گانا سن رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے انھیں بعض اشعارپڑھنے سے منع فرمایا۔
oچند اشعار سے منع کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیت جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں کثرت سے استعمال ہونے والے آلۂ موسیقی دف پر کوئی پابندی عائد نہیں فرمائی تھی۔ درج بالا دیگر روایتیں بھی اگر پیش نظر رہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خوشی کی تقریبات میں گیتوں کےساتھ اس کا استعمال عام تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسے مختلف موقعوں پربجایا گیا اور آپ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ بعض روایتیں اس کے جواز سے آگےبڑھ کرنکاح کے موقع پر اس کے لزوم کو بھی بیان کرتی ہیں:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہوسلم: فصل بین الحلال والحرام الدف والصوت فی النکاح. (ابن ماجہ، رقم ۱۸۹۶)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(نکاح کے) حلال اور حرام میں فرق یہ ہےکہ دف بجایا جائے اور بلند آواز سے اعلان کیا جائے ۔ ‘‘ ۱۰
دف کے آلۂ موسیقی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہ ہاتھ سے بجانے والا ایک ساز ہے جوقدیم زمانے سے استعمال ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر جواد علی نے اس کے بارے میں لکھا ہے:
والدف من آلات الطرب القدیمۃ المشھورۃو یستعمل للتعبیر عن العواطف فی الفرح والسرور… و تنقر بہ النساء ایضاً. وقد کان شائعاً عند العرب، ینقرون بہ فی افراحھم. ولما وصل الرسول الی یثرب، استقبل بفرح عظیم و بالغناء و بنقر الدفوف. واکثر ما استعملہ العرب فی المناسبات المفرحۃ،کالنکاح، ورافقوا الضرب بہ اصوات الغناء.(تاریخ العرب ۵؍ ۱۰۸)
’’دف موسیقی کے مشہور اور قدیم آلات میں سے ہے۔ یہ سروراور خوشی کے جذبات کے اظہارکے لیے استعمال ہوتا ہے … عورتیں بھی اسے بجاتی ہیں۔ عربوں کے ہاں یہ بالکل عام تھا۔ وہ اسے خوشی کے موقعوں پربجاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچےتو آپ کانہایت خوشی کے ساتھ گیت گاکر اور دف بجا کر استقبال کیا گیا۔ اہل عرب بالعموم اس کا استعمال نکاح جیسے خوشی کے مواقع پر کرتے تھے اور اس کو بجا کر اسکے ساتھ گیت گاتے تھے۔‘‘
بائیبل میں بھی متعدد مقامات پر اس کاذکر آلۂ موسیقی کے طور پر ہوا ہے۔ اردو زبان میں بائیبل کی قاموس میں’’ موسیقی کےساز‘‘ کے زیر عنوان بیان ہوا ہے:
’’یہ (دف) غالباً خنجری قسم کا سازتھا جو ہاتھ میں پکڑ کر بجایا جاتا تھا۔ یہ گانے اور ناچنے میں تال دینے کے لیےاستعمال ہوتا تھا۔ جشن کی محفلوں اور جلوسوں میں یہ رونق پیدا کرتا تھا۔‘‘(قاموس الکتاب، ۹۷۸)
فن موسیقی
عن السائب بن یزید ان امراۃ جاء ت الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا عائشۃ تعرفین ھذہ؟ قالت: لا یا نبی اللّٰہ. قال: ھذہ قینۃ بنی فلان تحبین ان تغنیک؟ فغنتھا. (سنن البیہقی الکبریٰ ،رقم ۸۹۶۰)
’’سائب بن یزیدبیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی۔ آپ نے(سیدہ عائشہ سے) فرمایا: عائشہ کیا تم اس عورت کوجانتی ہو؟ سیدہ نےکہا: جی نہیں، اے اللہ کے نبی۔آپ نے فرمایا: یہ فلاں قبیلے کی گانے والی ہے ۔ کیا تم اس کا گانا سننا پسند کرو گی ؟ چنانچہ اس نے سیدہ کو گانا سنایا ۔‘‘ ۱۱
اس روایت کے بنیادی نکات یہ ہیں:
oفن موسیقی سے وابستہ ایک عورت ۱۲نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔
oاس نے آپ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ سیدہ عائشہ کو گانا سنانا چاہتی ہے۔
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نہ کراہت کا اظہار فرمایااور نہ اسے سرزنش فرمائی۔
oاس کے برعکس آپ نے سیدہ سے اسے متعارف کرایا۔
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے اس مغنیہ نے سیدہ کو گانا سنایا۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فن موسیقی کو اصلاًباطل نہیں سمجھتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ اس پیشہ ور مغنیہ کو ٹوک دیتے یا کم سےکم سیدہ کو اس کا گانا ہر گز نہ سننے دیتے۔ بعض دوسری روایتوں سے بھی معلوم ہوتاہے کہ ماہر فن مغنی اور مغنیات اور رقاص اور رقاصائیں عرب میں موجود تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے فن سے لطف اندوز ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔
ترمذی اور بیہقی کی حسب ذیل روایتوں سے یہی تاثر ملتاہے :
عن عائشۃ قالت : کان رسول اللّٰہ جالسا فسمعنا لغطا و صوت صبیان فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاذا حبشیۃتزفن والصبیان حولھا فقال یا عائشۃ تعالي فانظری فجئت فوضعت لحیی علی منکب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجعلت انظر الیھا ما بین المنکب الی رأسہ فقال لي اماشبعت اما شبعت ؟ قالت فجعلت اقول لا لأنظر منزلتی عندہ اذ طلع عمر قال فارفض الناسعنھا قالت فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انی لأنظر الی شیاطین الانس والجن قد فروا من عمر. (ترمذی ، رقم ۳۶۹۱)
’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(ہمارے درمیان ) تشریف فرما تھے۔ یک بہ یک ہم نے بچوں کا شور سنا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے ۔پھر( ہم نے دیکھا کہ) ایک حبشی عورت ناچ رہی تھی ۔ بچے اس کے ارد گرد موجودتھے ۔آپ نے فرمایا : عائشہ ، آ کر دیکھو۔ (سیدہ کہتی ہیں کہ) میں آئی اور اپنی ٹھوڑی حضور کے شانے پر رکھ کرآپ کے کندھے اور سر کے مابین خلا میں سے اسے دیکھنےلگی۔ حضور نے کئی بار پوچھا : کیا ابھی جی نہیں بھرا ؟ میں یہ دیکھنے کے لیے کہ آپکو میری خاطرکس قدر مقصود ہے، ہر بار کہتی رہی کہ ابھی نہیں۔ اسی اثنا میں عمررضی اللہ عنہ آ گئے۔ (انھیں دیکھتے ہی) لوگ منتشر ہو گئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ عمر کے آنے سے شیاطین جن و انس بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘ ۱۳
حدثنا عبداللّٰہ بن بریدۃ عن ابیہ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدم من بعض مغازیہ فأتتہ جاریۃ سوداء فقالت یا رسول اللّٰہ انی کنت نذرت ان ردک اللّٰہ سالما ان اضرب بین یدیک بالدف فقال ان کنت نذرت فاضربی قال فجعلت تضرب فدخل ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ وھی تضرب ثم دخل عمر رضی اللّٰہ عنہ فالقت الدف تحتھا وقعدت علیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:ان الشیطان یخاف منک یا عمر. (بیہقی سنن الکبریٰ، رقم ۱۹۸۸۸)
’’عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے سے لوٹے تو ایک سیاہ فام لونڈی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ ، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ آپ کو سلامتی کے ساتھ واپس لایا تو میں آپکے سامنے دف بجاؤں گی۔ آپ نے فرمایا: اگر تم نے نذر مانی ہے تو بجا لو۔ اس نے دف بجانا شروع کیا ۔ (اسی دوران میں)ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور وہ دف بجاتی رہی۔پھر عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔ (انھیں دیکھ کر ) اس نے دف کو اپنے نیچے چھپالیا۔ (یہ دیکھ کر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: عمر تم سے تو شیطان بھی ڈرتاہے۔‘‘
ترمذی اور بیہقی کی ان روایتوں میں نوعیت واقعہ سے واضح ہے کہ ’حبشیہ‘ (حبشی عورت) اور ’جاریۃ سوداء‘ (سیاہ فام لونڈی) سے مراد ’قینۃ‘ (مغنیہ لونڈی )ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ گھریلو عورت کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ اس طریقے سے لوگوں کے سامنے فن کا مظاہرہ کرے۔
درج بالا معجم الکبیر کی روایت میں ’قینۃ‘سے مراد ماہر فن مغنیہ ہے۔یہ لفظ عربی زبان میں مغنیہ ہی کے لیے خاص ہے۔ لسان ا لعرب میں ہے:’والقینۃ: الامۃ المغنیۃ‘،’’قینہ یعنی مغنیہ لونڈی‘‘۔ ۱۴
حبشہ کے غلام اور لونڈیاں رقص و موسیقی کے فنون میں مہارت رکھتے تھے۔ روایتوں سےمعلوم ہوتا ہے کہ حبشی مردوں اور عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔
رقص
عن انس قال کانت الحبشۃ یزفنون بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویرقصون و یقولون: ’’محمد عبد صالح‘‘ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مایقولون؟ قالوا یقولون: ’’محمد عبد صالح‘‘.(احمد بن حنبل ، رقم ۱۲۵۶۲)
’’انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حبشہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےناچ رہے تھے اور یہ گا رہے تھے : محمدصالح انسان ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ کہہ رہے ہیں:محمدصالح انسان ہیں۔‘‘
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
oحبشہ کے رقاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ناچ رہے تھے۔
oناچنے کے ساتھ وہ آپ کی مدح سرائی بھی کر رہے تھے۔
oآپ نے انھیں ناچنے اور گانے سے منع نہیں فرمایا۔
oاس بات سے آپ کی دل چسپی کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ نے گانے کے الفاظ کے بارے میں دریافت کیا ۔
روایات میں مذکور ہے کہ حبشہ کے ماہر فن رقاص اہل عرب کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ عرب کے شرفا کے نزدیک ان کے رقص سے محظوظ ہونا معیوب بات نہیں تھی۔چنانچہ وہ انھیں اپنی مختلف تقریبات میں مدعو کرتے تھے۔ ’’المفصل فی تاریخ العرب‘‘میں ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
وقد عرف الحبش بحبھم للرقص . وکان اھل مکۃ و غیرھم من اھل الحجاز اذا ارادوا الاحتفال بعرس اوختان او ایۃ مناسبۃ مفرحۃاخری احضروا الحبش للرقص والغناء علی طریقتھم الخاصۃ. (۵/ ۱۲۲)
’’حبشہ کے لوگوں کی رقص سے محبت مشہور تھی۔ اہل مکہ اور ان کے علاوہ اہل حجاز جب شادی، ختنہ یا کوئی اور خوشی کی محفل منعقد کرتے تو حبشہ کے لوگوں کو ان کے مخصوص ناچ گانے کے لیے بلاتے تھے۔‘‘
روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حبشہ کے ان فن کاروں کا رقص دیکھا:
عن عائشۃ قالت جاء حبش یزفنون فی یوم عید فی المسجد فدعانی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فوضعت راسی علی منکبہ فجعلت انظرالی لعبھم حتی کنت انا التی انصرف عن النظر الیھم. (مسلم ، رقم۸۹۲ )
’’ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں: ایک مرتبہ عید کے روزحبشی مسجد میں رقص کامظاہرہ کرنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ میں نے آپ کے شانے پر سررکھا او ر ان کا کرتب دیکھنے لگی۔ (کافی وقت گزرنے کے باوجودنبی صلی اللہ علیہوسلم نے مجھے منع نہیں فرمایا)یہاں تک کہ میں خود ہی انھیں (مسلسل) دیکھ کر تھک گئی ۔‘‘
خوش الحانی کی تحسین
عن ابی موسیٰ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ یا ابا موسیٰ لقد اوتیت مزمارا من مزامیر آل داؤد.(بخاری، رقم۴۷۶۱)
’’ابو موسیٰ اشعری سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (میری تلاوت سنکر)فرمایا: اے ابو موسیٰ، تجھے توقوم داؤد کے سازوں میں سے ایک ساز دیا گیا ہے۔‘‘ ۱۵
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
oنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت میں غنا کو پسند فرمایا۔
oآپ نے خوش الحانی سے تلاوت قرآن کو ساز سے تعبیر کیا۔
oآپ نے مثبت انداز سے قوم داؤد کے سازوں کا ذکر فرمایا۔
اس روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش الحانی کو پسندفرماتے تھے۔ روایت کے الفاظ سے واضح ہے کہ آپ کے تحسین فرمانے کا سبب خوش الحانی ہے۔یہ چیز ظاہر ہے کہ تلاوت کے علاوہ بھی کہیں موجود ہو گی تو لائق تحسین ٹھہرےگی۔یعنی اللہ کی حمد و ثنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت یا دیگر اچھے مضامین کے اشعار کو اگر خوش الحانی سے پڑھا جائے تو ان سے محظوظ ہونا پسندیدہ ہی قرارپائے گا۔غنا اور موسیقی کا فن اسی خوش الحانی پر مبنی ہے۔تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ تلاوت قرآن کے لیے لحن کے جو قواعد مرتب کیے گئے ہیں، وہ فن موسیقی کےقواعد سے مختلف ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ آواز کا زیر و بم اور لہجے کی شیرینی و لطافت جیسے غنا کے بنیادی لوازم دونوں فنون میں یکساں طور پر مطلوب ہیں ۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ دونوں فنون ایک نوعیت کا اشتراک بہرحال رکھتے ہیں۔
مزید براں اس روایت میں ’مزامیر آل داؤد‘ کے الفاظ مثبت انداز سے آئے ہیں ۔ ان کےاستعمال سے آپ نے گویا سیدنا داؤد علیہ السلام اور ان کی قوم کے بارے میں بائیبل کی ان روایات کی تصدیق فرما دی ہے جن کے مطابق وہ اللہ کی حمد وثنا کے لیے آلات موسیقی استعمال کیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ بعض جلیل القدر مفسرین نے قرآن کے ان مقامات کی تفسیر میں جہاں سیدنا داؤد علیہ السلام کی حمد و ثنا کا ذکر ہوا ہے، اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ابن کثیر سورۂ انبیا کی آیت ۷۹ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وذلک لطیب صوتہ بتلاوۃ کتابہ الزبوروکان إذا ترنم بہ تقف الطیر فی الہواء فتجاوبہ وترد علیہ الجبال تأویبا ولھذا لمامر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أبي موسی الأشعری وھو یتلو القرآن من اللیل وکان لہ صوت طیب جدا فوقف واستمع لقراء تہ وقال: لقد أوتی ہذا مزمارا من مزامیر آلداود قال یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو علمت أنک تسمع لحبرتک تحبیرا،وقال أبو عثمان النہدی ما سمعت صوت صنج ولا بربط ولا مزمار مثل صوت أبی موسیٰ رضی اللّٰہ عنہ. (۳/ ۱۸۷)
’’اور یہ ان کی اچھی آواز کے ساتھ زبور کی تلاوت کرنے کی وجہ سے تھا۔ جب وہ اسےترنم سے پڑھتے تو پرندے ہوا میں رک جاتے اور اس کا جواب دیتے اور پہاڑ اس تسبیح کاجواب دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوموسیٰ اشعری کےپاس سے گزرے ، جبکہ وہ تہجد کے وقت قرآن کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ رک گئے اور انکی قرأت سنی ، کیونکہ ان کی آواز بے حد خوب صورت تھی۔ آپ نے فرمایا: بے شک، اسے آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار عطا کیا گیا ہے ۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) کہا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں آپ کو اور خوش کرتا۔ابو عثمان نہدی نے بیان کیا ہے : میں نے کسی ڈھول ، بانسری اور بربط کی ایسی آوازنہیں سنی جیسی حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی ہے۔‘‘
اس روایت کی بنا پر یہ بات بھی بجاطور پر کہی جا سکتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سیدنا داؤد علیہ السلامکی خوش الحانی مسلم تھی۔
____________
۲؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے ۔
۳؎ روایت میں ’ جاریتان‘ (دولونڈیاں)کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے ’’بچیاں‘‘ مراد لیاہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ’ جاریۃ‘ کا لفظ ’’بچی ‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے، مگریہاں لازم ہے کہ اس سے ’’لونڈیاں‘‘ ہی مراد لیا جائے اور لونڈیاں بھی وہ جو ماہرفن مغنیات کی حیثیت سے معروف تھیں۔ روایت کے اسلوب بیان کے علاوہ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دوسرے طریق میں ’جاریتان‘ کے بجائے ’ قینتان ‘ کے الفاظ نقل ہوئےہیں ۔ ’قینۃ ‘کامعلوم و معروف معنی ’’ پیشہ ور مغنیہ‘‘ ہے ۔ روایت یہ ہے:
عن عائشۃ ان ابا بکر دخل علیھاوالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عندھا یوم فطر او اضحی وعندھا قینتان تغنیان بما تقاذفتالانصار یوم بعاث فقال ابوبکر مزمار الشیطان مرتین فقال النبی صلی اللّٰہ علیہوسلم دعھما یا ابابکر ان لکل قوم عیدا وان عیدنا ھذا الیوم. (بخاری، رقم۳۷۱۶)
’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ عید الفطر یا عید الاضحی کے روز ان کے پاس آئے نبی صلی اللہ وسلم بھی وہاں موجود تھے۔ اس وقت دو مغنیہ لونڈیاں وہ گیت گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث میں پڑھے تھے۔ سیدنا ابوبکر نے دو مرتبہ کہا: یہ شیطانی ساز (کیوں)؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر ابوبکر سے فرمایا: انھیں گانے دو۔ ہر قوم کا ایک عید کا دن ہوتا ہے ۔ اور آج ہماری عید کا دن ہے۔‘‘
۴؎ بخاری میں یہی روایت ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:
عن عائشۃ انھا زفت امراۃ الی رجل من الانصار، فقال نبی اللّٰہ : یا عائشۃ ما کان معکم لھو، فان الانصار یعجبھم اللھو.( رقم ۴۸۶۷ )
’’عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک خاتون کو ایک انصاری شخص سےبیاہ کر رخصت کر دیا۔(اس موقع پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ، (کیاوجہ ہے کہ )تم لوگوں کے ساتھ کچھ گانا بجانانہیں تھا، (حالانکہ )انصار توگانےبجانے سے خوش ہوتے ہیں ۔‘‘
۵؎ محدثین نے اس روایت کو’حسن‘قرار دیا ہے ۔
۶؎ یہاں ’جوار ‘ کا ترجمہ’’بچیاں‘‘ کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ دوسرے طریق میں اس کے بجائے ’قینات‘(مغنیات) آیا ہے:
عن انس بن مالک قال النبی علی حي من بنی النجار فاذا جواری یضربن بالدف ویقلن نحن قینات من بنی النجار فحبذا محمد من جار فقال النبی اللّٰہ یعلم ان قلبی یحبکم. (المعجم الصغیر، رقم۷۸)
’’انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے ایک قبیلے کے پاسسے گزرے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لونڈیاں دف بجا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم بنی نجار کی گانے والیاں ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج محمد ہمارے ہمسائے بنے ہیں ۔آپ نے فرمایا: اللہ جانتا ہے کہ میرے دل میں تمھارے لیے محبت ہے ۔ ‘‘
۷؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے ۔
۸؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘قرار دیا ہے۔
۹ ؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے ۔
۱۰؎ شریعت کی رو سے خفیہ نکاح باطل قرار پاتا ہے۔چنانچہ نکاح کا اعلان شرائط نکاح میں شامل ہے۔اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں
نکاح کے موقع پر دف بجانے کو ضروری قرار دیا۔بیہقی سنن الکبریٰ کی ایک روایت میں یہی بات تفصیل سے بیان ہوئی ہے:
عن علی ابن ابی طالب أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر ہو وأصحابہ ببني زریق فسمعوا غناء ولعبا فقال ما ہذاقالوا نکاح فلان یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال کمل دینہ ہذا النکاح لاالسفاح ولا النکاح السر حتی یسمع دف أو یری دخان قال حسین وحدثنی عمرو بن یحی المازني أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یکرہ نکاح السر حتی یضرببالدف. (بیہقی سنن الکبری،رقم۱۴۴۷۷)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہکے ہمراہ بنی زریق کے پاس سے گزرے ۔ اس موقع پر آپ نے ان کے گانے بجانے کی آوازسنی ۔ آپ نے پوچھا :یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا :یا رسول اللہ ، فلاں شخص کانکاح ہو رہا ہے ۔ آپ نے فرمایا : اس کا دین مکمل ہو گیا۔ نکاح کا صحیح طریقہ یہی ہے ۔ نہ بدکاری جائز ہے اور نہ پوشیدہ نکاح ۔ یہاں تک کہ دف کی آواز سنائی دے یادھواں اٹھتا ہوا دکھائی دے۔ حسین نے کہا ہے اور مجھ سے عمرو بن یحییٰ المازنی نےبیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ نکاح کو ناپسند کرتے تھے یہاں تک کہ اسمیں دف بجایا جائے ـ۔ ‘‘
نکاح کے موقع پر موسیقی کے استعمال کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے اورتمدن کے لحاظ سے ضروری قرار دیا۔ موجودہ زمانے میں عرف اور حالات کے مطابق کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
۱۱؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘قرار دیا ہے ۔
۱۲؎ یہاں ’ قینۃ‘ کے الفاظاستعمال ہوئے ہیں جس کے معنی ماہر فن اور پیشہ ور مغنیہ کے ہیں ۔
۱۳؎ بعض لوگ اس روایت کو غنا کی شناعت میں استدلال کے لیے پیش کرتے ہیں۔اس ضمن میں ان کی بنائے استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ ہے :’’عمر کے آنے سے شیاطین جن و انس بھاگ کھڑے ہوئےہیں ۔ ‘‘ اس جملے کی بنا پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےموسیقی کو شیطان سے منسوب کر کے اس کی شناعت کا اظہار فرمایا ہے ۔ ہمارے نزدیک سیاق کلام سے واضح ہے کہ یہ محض تفنن طبع کا جملہ ہے جو آپ نے سیدنا عمر کی طبیعت کی سختی کو بیان کرنے کے لیے ارشاد فرمایا ہوگا۔ اگر اس کے لفظی معنوں ہی کو حقیقی سمجھا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ سیدہ عائشہ ، سیدنا ابوبکر اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گانا سننے کے عمل کو کیا معنی پہنائے جائیں گے ؟
۱۴؎ اس لفظ کا یہ مصداق اسلام سےپہلے اور اسلام کے بعد ہر لحاظ سے سے معلوم و معروف رہاہے۔ امرؤ القیس کےاشعارہیں:
فان امس مکروب فیا رب قینۃ
منعمۃ اعملتھا بکران
لھا مزھر یعلوا الخمیس بصوتہ
جش اذا ما حرکتہ الیدان
’’اگرچہ کل غمگین تھی تو کیا ہوا کتنی ہی نرم و نازک گانے والی لونڈیاں ہیں جن کو میں نے گانا گانے پر مامور کیا۔ان کے پاس ایسا ساز ہے جس کی آواز پورے لشکر پر چھا جاتی ہے اور جب ہاتھ اس کوحرکت دیتے ہیں تو اس سے ایک بھاری اور بھدی آواز نکلتی ہے ۔‘‘
۱۵؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘قرار دیا ہے ۔
Manzur ul Hassan
اتنا اچھا مضمون لکھا مگر تعجب ہے کہ اسے موسیقی کو حلال قرار دیننے میں استعمال کرڈالا۔ اچھے اشعار اچھی آواز سے پڑھنے کو تو کوئی بھی منع نہیں کرتا۔ اور اس مضمون سے بھی آلات موسیقی میں سے صرف دف بجانا ثابت ہوا ہے اور اس کو بھی کوئی منع نہیں کرتا۔ پھر اتنی محنت سے اتنا طویل مضمون لکھنے کا مقصد؟؟؟