اسلامی معاشیات
مصنف : عبد الحمید ڈار
صفحات: 525
اسلامی معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معیشت کس طرح چل سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے مثلاً بینکاری کو اسلامی بنیادوں میں کیسے ڈھالا جاسکتا ہے یا موجودہ نظامِ سود کو کیسے تبدیل کیا جائے جس سے سود کے بغیر ادارے، کاروبار اور معیشت چلتی رہے۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ اگر صارف (Consumer) یا پیداکار(Producer) اسلامی ذہن رکھتے ہوں تو ان کا بنیادی مقصد صرف اس دنیا میں منافع کمانا نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور رویوں میں آخرت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے صارف اور پیداکار کا رویہ ایک مادی مغربی معاشرہ کے رویوں سے مختلف ہوگا اور معاشی امکانات کے مختلف نتائج برامد ہوں گے۔ اسلامی معاشی اصولوں پر مبنی بےشمار بنک آج کے دور میں بہترین منافع کے ساتھ مختلف ممالک میں کامیابی سے چل رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب “اسلامی معاشیات” پروفیسر عبد الحمید ڈار اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور،پروفیسر محمد عظمت گورنمنٹ کالج لاہور اور پروفیسر میاں محمد اکرم صاحب گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ لاہور کی مشترکہ کاوش ہے۔ جو ان حضرات نے ایم اے اسلامیات کے طلباء کی ضروریات کو سامنے رکھ کر مرتب کی ہے۔ اور اسلامی معاشیات کے اصول وضوابط بیان کئے ہیں۔اسلامی معاشیات کے میدان میں یہ ابتدائی مرحلے کاکام ہے، اس لئے فطری طور پر اس کے مباحث میں تنقید وتنقیح کا وسیع امکان موجود ہے۔جس کے لئے اہل علم کو آگے بڑھنا ہو گا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولفین کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین
عناوین | صفحہ نمبر | |
حصہ اول | ||
اسلامی معاشیات کیا ہے ؟ | 1 | |
باب 1 | ||
اسلامی معاشیات کی نوعیت ووسعت | 3 | |
1۔اسلام کا معاشی نظام اور اس کے نظریہ حیات کا ایک جزو ہے | 3 | |
دو نظریہ ہائے حیات | 3 | |
انسان کا معاشی مسئلہ ۔ اسلامی نظریہ حیات کےتناظر میں | 4 | |
2۔اسلامی معاشیات کے ماخذ | 7 | |
1۔کتاب اللہ | 7 | |
2۔سنت رسو ل اللہ | 7 | |
3۔اجتہاد | 8 | |
اجتہاد کی شکلیں | 9 | |
اجماع | 9 | |
قیاس | 9 | |
4۔عرف عام یا رواج | 10 | |
5۔ مصلحت | 11 | |
3۔ اسلامی معاشیات کی نوعیت ووسعت | 11 | |
اسلامی معاشیات کی تعریف | 11 | |
اسلامی معاشیات بمقابلہ مغربی معاشیات | 12 | |
1۔بنیادی مفروضات کا فرق | 12 | |
(الف) تصورکائنات | 13 | |
(ب) تصور انسان | 13 | |
2۔ اخلاقی اقدار کی عمل داری کا فرق | 15 | |
3۔ مقاصد کافرق | 15 | |
دائرہ بحث کا فرق | 16 | |
5۔طریق تحقیق کا فرق | 17 | |
6۔ علم وفن کا فرق | 17 | |
7۔شعبہ جاتی اہمیت کا فرق | 17 | |
اسلامی معاشیات کی ضورت | 18 | |
کتابیات | 20 | |
باب 2 | ||
اخلاقی اقدار اور اسلام کا معاشی نظام | 21 | |
(i)تقویٰ | 22 | |
(ii)مساوات | 30 | |
(iii)اخوت | 33 | |
(iv) عدل | 35 | |
(v) معاشی عدل | 37 | |
(vi) احسان | 41 | |
(vii) تعاون | 47 | |
حلال و حرام کا تصور | 51 | |
دائر معیشت میں حلال وحرام کی کارفرمائی | 52 | |
صرف دولت ، پیدائش دولت ، تبادلہ دولت ، تقسیم دولت کے شعبہ میں حلال وحرام | 56 | |
کتابیات | 57 | |
باب 3 | ||
معاشیات کے ارتقاء میں مسلمانوں کا کردار | 59 | |
قرآن وحدیث | 60 | |
قرآن وحدیث کی معاشیات تعلیمات کاخلاصہ | 62 | |
مسلمان مفکرین کے کام کامختصر جائزہ | 66 | |
معاشیات کےارتقاء میں مسلمانوں کا حصہ | 67 | |
مسلمان مفکرین اور ان کے معاشی افکار | 68 | |
کتابیات | 78 | |
حصہ دوم | ||
اسلام کا معاشی نظام | 81 | |
باب 4 | ||
اسلام اوردیگر معاشی نظام | 83 | |
نظام کامفہوم | 83 | |
معاشی نظام کے لوازمات | 84 | |
اسلام کا معاشی نظام | 85 | |
اسلام نظام معیشت کی فکری بنیادیں | 88 | |
اسلام نظام معیشت کےبنیادی خدوخال | 90 | |
2۔سرمایہ دارانہ نظام معیشت | 96 | |
نظام سرمایہ داری کی فکری بنیادیں | 98 | |
خوبیاں | 101 | |
خامیاں | 101 | |
3۔اشتراکی نظام معیشت | 104 | |
مفہوم | 104 | |
فکری بنیادیں | 105 | |
فکری لغزشیں | 106 | |
اشتراکی نظام کی خصوصیت | 107 | |
4۔اسلام نظام معیشت اوردیگر معاشی نظاموں کا موازنہ | 109 | |
(i)اسلام اورسرمایہ داری کا فرق | 110 | |
(ii)اسلامی اور اشتراکی نظام معیشت کا فرق | 111 | |
5۔اشتراکیت اور سرمایہ داری ۔ ایک ہی سکہ کے دو رخ | 113 | |
کتابیات | 113 | |
حصہ سوم | ||
نظریہ جزوی معاشیات : اسلامی تناظر میں | 115 | |
باب 5 | ||
صرف دولت | 117 | |
1۔ مفہوم اور اہمیت | 117 | |
اسلام اور صرف دولت | 118 | |
2۔صرف کےاصول | 119 | |
3۔ اعتدال | 121 | |
4۔ اسلامی معاشرہ میں رویہ صارف کا نظریہ | 126 | |
رویہ صارف کا مغربی تصور | 126 | |
رویہ صارف کا اسلامی نقطہ نظر | 128 | |
(1) اسلام کا تصور آخرت | 128 | |
(2) اسلام کا تصور کامیابی | 129 | |
(3) اسلام کا تصور کامیابی | 130 | |
مسلم صارف کا توازن | 131 | |
کتابیات | 132 | |
باب 6 | ||
اسلامی معیشت میں رویہ فرم | 133 | |
(الف) اخلاقی اقدار اور رویہ فرم | 133 | |
(ب) فرم کی پالیسی کےلیے رہنما اصول | 135 | |
(ج) اسلامی فرم کے لئے محرکات | 137 | |
(د) اسلامی فرم کے مقاصد | 140 | |
(ھ) الحسبۃ اور اسلامی فرم | 142 | |
(و) اسلامی فرم کا رویہ اور منڈی کے مختلف حالات | 143 | |
(1) مکمل مقابلہ | 143 | |
(2)اجارہ داری | 144 | |
(3)چند اجارہ | 145 | |
20۔اسلام اور قیمتوں کی میکانیت | 146 | |
3۔عادلانہ قیمت کا نظریہ اور اسلام | 149 | |
4۔تسعیر یعنی قیمتوں پر کنٹرول کامسئلہ | 151 | |
اسلام کاکاروبار ضابطہ اخلاق | 157 | |
کتابیات | 157 | |
حصہ چہارم | ||
اسلام میں مالیات کی فراہمی کے طریقے | 161 | |
باب 7 | ||
شراکت ومضاربت | 161 | |
(الف) شراکت | 159 | |
(i) شراکت کی تعریف | 161 | |
(ii) شراکت کاجواز | 161 | |
(iii)شراکت کی شرائط | 163 | |
(iv)شراکت کی اقسام | 163 | |
(v) شراکت کی جدید اقسام | 166 | |
(vi) شراکت کے احکام | 166 | |
(vii)شرکاء کی ذمہ داریاں اور حقوق | 167 | |
(viii) شراکت کی مدت | 167 | |
(xi)معاہدہ شراکت کی منسوخی | 168 | |
(x) شراکت اور صنعتی کاروبار | 168 | |
(ب) مضاربت | 169 | |
(الف) مضاربت کا مفہوم | 169 | |
(ب) تعریف | 169 | |
(ج)مضاربت کی صورتیں | 170 | |
(د) مضاربت کے بارے میں احادیث | 170 | |
(ھ) مضاربت کے احکام | 172 | |
(و) مضاربت کے ارکان ( معاہدہ) | 172 | |
(ذ) شرائط مضاربت | 173 | |
(س) مضارت کےحقوق وفرائض | 174 | |
(ص) معاہدہ مضاربت کی مدت | 175 | |
(ط) نفع و نقصان کےاحکام | 175 | |
کتابیات | 177 | |
باب8 | ||
اسلامی معیشت میں مالیات کی فراہمی کےمزید طریقے | 179 | |
(الف) بیع مسلم | 179 | |
بیع مسلم کے ارکان | 181 | |
دور جدید میں بیع مسلم سےاستفادہ | 183 | |
(ب) بیع مرابحہ | 185 | |
بیع مرابحہ کی شرائط | 186 | |
بیع مرابحہ اور ربا میں فرق | 187 | |
بیع مرابحہ کےبارے میں فقہاء کی آراء | 191 | |
دور جدید میں مرابحہ سے استفادہ | 192 | |
پروانہ قرض اور مرابحہ | 193 | |
(ج) بیع مئوجل | 196 | |
بیع مئوجل کےشرعی احکام | 196 | |
(د) اجارہ | 201 | |
اجارہ کے قواعد وضوابط | 201 | |
اجرت کےمسائل | 203 | |
معاہدہ اجارہ کےصحیح ہونےکی شرائط | 205 | |
اجارہ کی مدت | 206 | |
(7) کرایہ | 206 | |
(8) زرعی زمینو ں کا کرایہ | 208 | |
(9) اجارہ (کرایہ) اور اسلامی بنکاری میں اس کا استعمال | 208 | |
کتابیات | 210 | |
حصہ پنجم | ||
تقسیم دولت : اسلامی معیشت میں | 211 | |
باب 9 | ||
اسلام اور تقسیم دولت ( 1) | 213 | |
گردش دولت پر قرآن کا پرزور استدلال | 213 | |
1۔ زمین کا لگان | 215 | |
(الف) زرعی زمینوں کو کرایہ یااجارہ پردینے سے متعلق احادیث | 216 | |
(ب) لگان کی تعریف | 216 | |
(ج) اسلام کا نظریہ لگان | 217 | |
(د) لگان کا تعین | 217 | |
(ھ) لگان کاتعین اور ریاست | 218 | |
(و) اسلامی نظریہ لگان کی خصوصیات | 221 | |
2۔ منافع | 221 | |
(الف) منافع کاجواز | 222 | |
(ب) نفع آور کاروبار کی حدود | 222 | |
(ج) منافع کی تعریف | 224 | |
(د) منافع کےتعین کے اصول | 224 | |
3۔ اجرت | 226 | |
(الف) اجرت کی تعریف | 226 | |
(ب) اجرتوں کے تعین کےنظریات | 226 | |
(ج) اجرتوں کاتعین : اسلامی نقطہ نظر | 227 | |
(ھ) اجروں کا معیار | 228 | |
(و) کم از کم معیار اجرت | 229 | |
4۔محنت کی عظمت | 230 | |
(الف) محنت اور سرمایہ کے تعلقات | 232 | |
(ب) مزدوروں کےحقوق ( یعنی آجر کےفرائض) | 233 | |
(ج) آجر کےحقوق ( یعنی مزدووں کے فرائض ) | 235 | |
کتابیات | 236 | |
باب 10 | ||
اسلام اورتقسیم دولت (2) | 237 | |
ارتکاز دولت کے خاتمہ کے لیے اقدامات | 237 | |
(الف) قانونی اقدامات | 237 | |
(1)زکوٰۃ | 238 | |
زکوٰۃ کی فرضیت | 238 | |
زکوٰۃ کے معنی | 239 | |
زکوٰۃ کا مقصد | 240 | |
زکوٰۃ کا حکم | 240 | |
زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط | 240 | |
مصارف زکوٰۃ | 241 | |
عشر ۔ زمین کی زکوٰۃ | 243 | |
زکوٰۃ اور ٹیکس میں فرق | 244 | |
نظام زکوٰۃ کی معاشی اہمیت | 244 | |
2۔ اسلام کا قانون وراثت | 246 | |
(الف) وراثت | 246 | |
(ب) قانون وراثت | 246 | |
(ج) وراثت کےاحکام قرآن میں | 247 | |
(د) مصارف ترکہ کی ترتیب | 248 | |
(و) اسلامی قانو ن وراثت کےاہم نکات | 249 | |
(ذ) وراثت کے دیگر نظام | 250 | |
(ر) قانون وراثت کی معاشی اہمیت | 251 | |
(ب) اختیاری اقدامات | 253 | |
(1) صدقات وخیرات | 253 | |
(2) انفاق العفو | 255 | |
(3) اوقاف | 258 | |
موجودہ حالات میں وقف کےادارہ سے استفادہ | 260 | |
(4) اتکاز دولت کے خاتمہ کے لیے اسلامی ریاست کے مزید اقدامات | 261 | |
کتابیات | 264 | |
حصہ ششم | ||
اسلامی معاشیات میں کلی معاشیات کے بنیادی تصورات | 265 | |
باب 11 | ||
اسلامی معیشت میں صرف ،بچت اور سرمایہ کاری کےتفاعل | 267 | |
(الف) کلی تفاعل صرف | 268 | |
(1) تفاعل صرف روایتی معاشیات میں | 268 | |
(2) تفاعل صرف کومتاثر کرنےوالے عوامل | 269 | |
(3) صرف دولت کےمختلف نظریات | 270 | |
(4)رویہ صارف کےمغربی تصور کی بنیادیں | 270 | |
(5)رویہ صارف کا اسلامی تصور | 271 | |
(6)اسلامی معیشت میں تفاعل صرف | 277 | |
(الف) جزئی معاشیات میں تفاعل صرف | 277 | |
(ب) کلی معاشیات میں تفاعل صرف | 280 | |
(ج) کلی معاشیات میں صرف کا متحرک ماڈل | 281 | |
(د) اسلامی معیشت میں مجموعی تفاعل صرف | 282 | |
7۔ اسلامی معیشت میں تفاعل بچت | 283 | |
8۔ بچتیں اور مسلم ممالک میں اسلامی نظام نفاذ | 284 | |
9۔ اسلامی معیشت میں سرمایہ کاری | 285 | |
کتابیات | 288 | |
حصہ ہفتم | ||
زر، بنکاری اور زری پالیسی | 289 | |
باب 12 | ||
حرمت سود او رغیر سودی بنکاری | 291 | |
حصہ اول | ||
سود | 291 | |
(1) سود کیا ہے | 291 | |
(2) سود کی تعریف | 291 | |
(3)تجارت اور ربو میں فرق | 292 | |
(4) اسلام میں ربا یا سود کی تعریف | 292 | |
(5) سود کی اقسام | 293 | |
(6)تجارت اور سود میں فرق | 294 | |
(7)اسلام نے سود کیوں حرام قرار دیا ہے ؟ | 295 | |
(8) حرمت سود پر اس قدر زور کیوں؟ | 297 | |
(9) حرمت سود کی اخلاقی اہمیت | 299 | |
(10) حرمت سود کی معاشرتی اہمیت | 299 | |
(11) حرمت سود کی معاشی اہمیت | 299 | |
حصہ دوم | ||
بلاسود بنکاری | 305 | |
(1)بنک | 305 | |
(2) سودی معیشت میں بنک کے فرائض | 305 | |
(3) اسلامی معیشت اور بلاسود بنکاری | 307 | |
(4) بلاسود بنکاری کی ضرورت | 307 | |
(5) اسلامی نظام معیشت میں بنکاری | 307 | |
(6) غیر سودی بنکاری کا ماڈل | 308 | |
بنک کا قیام | 310 | |
بنک کا کاروبار | 311 | |
شرکت ومضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاری | 312 | |
بنکاری میں قرض سرمایہ کا استعمال | 318 | |
بنک کی طرف سے قرضوں کا اجراء | 321 | |
تخلیق زر کا عمل | 324 | |
مرکزی بنک | 325 | |
حصہ سوم | ||
عملی میدان میں ہونےوالی پیش رفت کا جائزہ | 329 | |
پاکستان میں بلاسود بنکاری | 342 | |
بلاسود بنکاری کے مروجہ طریقے | 343 | |
کتابیات | 345 | |
باب 13 | ||
اسلامی معیشت اور افراط زر | 347 | |
(1)تعریف | 347 | |
(2) اقسام | 347 | |
(3) اثرات | 348 | |
(4) اسباب | 348 | |
(5) اسلامی معیشت اور افراط زر | 350 | |
(6) افراد زر پر قابو پانے کے لئے خصوصی اقدامات | 351 | |
(7) قرضوں کی تجدید کے لیے خصوصی اقدامات | 354 | |
کتابیات | 358 | |
باب 14 | ||
تجارت خارجہ اور مالیات کی بلاسود فراہمی | 359 | |
(1)تجارت خارجہ کے لیے مالیات کی فراہمی | 359 | |
(الف) درآمدات کا شعبہ | 360 | |
(ب) برآمدات کا شعبہ | 361 | |
(2) مال کی ترسیل کےبعد | 362 | |
کتابیات | 363 | |
باب 15 | ||
انشورنس : اسلامی معیشت میں | 365 | |
(1) تعریف | 365 | |
(2) بیمہ کی اہمیت | 365 | |
(3)انشورنس کاارتقاء | 367 | |
(4)انشورنس پر علماء کرام کے اعتراضات | 368 | |
(5)انشورنس کا متبادل نظام | 370 | |
(6)انشورنس کی مجوزہ تنظیم | 372 | |
(7) بیمہ زندگی اور انشورنس کےنجی ادارے | 373 | |
کتابیات | 374 | |
حصہ ہشتم | ||
زکوٰۃ اور مالیاتی پالیسی | 375 | |
باب 16 | ||
زکوٰۃ اور مالیاتی پالیسی | 377 | |
حصہ اول مالیاتی پالیسی | 377 | |
1۔مالیاتی پالیسی کا مفہوم | 377 | |
2۔مالیاتی پالیسی کےآلات | 378 | |
3۔مالیاتی پالیسی کےمقاصد | 378 | |
4۔اسلامی ریاست اوراس کی مالیاتی پالیسی | 378 | |
5۔اسلامی ریاست کی مالیاتی پالیسی کےمقاصد | 378 | |
6۔ زکوٰۃ بطور آلہ مالیاتی پالیسی | 380 | |
دولت کی منصفانہ تقسیم | 381 | |
افرا ط زر کے بغیر مکمل روزگار کاحصول | 381 | |
ذرائع کی تخصیص پر زکوٰۃ کے اثرات | 382 | |
استحکام معیشت اورزکوٰۃ | 383 | |
زکوٰۃ اور صرف | 384 | |
زکوٰۃ اور سرمایہ کاری | 583 | |
زکوٰۃ اور بچت | 387 | |
زکوٰۃ اور معاشی ترقی | 388 | |
حصہ دوم : بیت المال | 389 | |
تعریف | 390 | |
بیت المال ک ذرائع آمدنی | 391 | |
بیت المال کےمصارف | 394 | |
حصہ سوم: اسلام میں ٹیکسوں کا تصور | 395 | |
(الف) مکس ،الماکس ،المکاس | 396 | |
(ب)خلفاء راشدین کا دور | 397 | |
(ج) اسلام میں ٹیکس پالیسی کےاصول | 398 | |
حصہ چہارم : اسلامی معیشت میں سرکاری اخراجات | 400 | |
(الف) اسلامی معیشت میں سرکاری اخراجات کی نوعیت | 401 | |
(ب) سرکاری اخراجات کے اصول | 402 | |
ضمیمہ : گزشتہ سالوں میں پاکستان میں نظام زکوۃ کا جائزہ | 405 | |
کتابیات | 409 | |
باب 17 | ||
اسلامی ریاست کا معاشی کردار | 411 | |
(1)ریاست کامفہوم اورمقاصد | 411 | |
(2)اسلامی ریاست | 411 | |
(3)اسلامی ریاست کا مفہوم | 412 | |
(4)مقاصد و وظائف | 412 | |
(5)اسلامی ریاست کا معاشی کردار | 412 | |
کتابیات | 419 | |
حصہ نہم | ||
معاشی ترقی و منصوبہ بندی | 421 | |
باب 18 | ||
اسلام اور معاشی ترقی | 423 | |
(1)معاشی ترقی کا مفہوم | 423 | |
(2) اسلام میں معاشی ترقی کا ترصور | 423 | |
(3)اسلامی معیشت میں معاشی رتقی | 425 | |
(الف) معاشی ترقی کی تعریف | 425 | |
(ب) معاشی ترقی کے اہداف | 425 | |
(4)اسلامی معیشت اور مروجہ معیشت میں ترقی کےتصور کا فرق | 427 | |
(5)دین کی اشاعت کا اہتمام | 428 | |
(6)معاشی ترقی کی پیمائش | 428 | |
(7)قرآن وحدیث میں معاشی جدوجہد اور معاشی ترقی کی ترغیبات | 429 | |
(8)اجتماعی معاشی ترقی کی جدوجہد کی ترغیب | 431 | |
(9) معاشی ترقی کےبارے میں فقہاء کی آراء | 431 | |
(10) خلفائے راشدین کے دور میں معاشی ترقی کے لیے اقدامات | 434 | |
کتابیات | 435 | |
باب 19 | ||
اسلام اور معاشی منصوبہ بندی | 437 | |
معاشی منصوبہ بندی کی تعریف | 437 | |
منصوبہ بندی کے لوازمات | 437 | |
منصوبہ بندی کی اقسام | 439 | |
اسلام میں منصوبہ بندی کی نوعیت | 440 | |
منصوبہ بند کی اہمیت | 441 | |
منصوبہ بندی کےمقاصد | 444 | |
انتخاب مقاصد | 445 | |
اہداف | 445 | |
حکمت عملی | 446 | |
کتابیات | 448 | |
حصہ دہم | ||
اسلام اور نیا عالمی اقتصادی نظام | 449 | |
باب 20 | ||
اسلام اور نیا عالمی اقتصادی نظام | 451 | |
(1)بین الاقوامی تجارت اوراسلام | 451 | |
تجارتی پالیسی | 455 | |
(2)اسلام اورنیا عالمی اقتصادی نظام | 456 | |
عالمی اداروں کی تشکیل نو | 457 | |
صنعت کی بہتر تقسیم کار | 458 | |
ترقی یافتہ ممالک کی منڈیوں تک رسائی | 458 | |
آج کےدور کا حقیقی چیلنج | 460 | |
زندگی کےبارے میں اسلامی نقطہ نظر | 461 | |
نئےنظام کے قیام میں اسلام کا کردار | 462 | |
کتابیات | 465 | |
حصہ یازدہم | ||
پاکستان میں معیشت کواسلامی خطوط پر ڈھالنے کی کوششوں کا جائزہ | 467 | |
باب 21 | ||
پاکستان میں معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی کوششوں کا جائزہ | 469 | |
زکوٰۃ و عشر آرڈیننس مجریہ 1980ء | 474 | |
کوتاہیاں اور خامیاں | 477 | |
کتابیات | 478 | |
حصہ با ز دہم | ||
(برائے ایم اے اسلامیات پارٹ ٹو ) | 479 | |
باب 22 | ||
اسلام کا نظریہ ملکیت | 481 | |
(الف) ملکیت کی حقیقت | 481 | |
(ب) ملکیت کےحقوق | 483 | |
(ج) نجی ملکیت کی حدود | 486 | |
زمین کی ملکیت | 493 | |
(1)وہ زمینیں جن کےمالک اسلام قبول کر لیں | 497 | |
(2) وہ زمینیں جن کےمالک اپنے دین پرقائم رہیں | 497 | |
(3) وہ زمینیں جن کےمالک بزور شمشیر مغلوب ہو ئے ہوں | 498 | |
(4) وہ زمینیں جو کسی کی ملک نہ ہوں | 498 | |
موات زمینوں کے بارے میں حکم | 499 | |
اسلامی ریاست اور عطیہ زمین یا قطعیہ | 500 | |
(د)اجتماعی ملکیت کا تصور | 502 | |
(ھ) مالک زمین کے حقوق | 503 | |
(ذ)مزارعت | 504 | |
مزارعت کی تعریف | 505 | |
مزارعت کاعدم جواز اور اس کی وجوہات | 507 | |
مزارعت کی ممنوعہ شکلیں | 509 | |
زمین کے استعمال کےبارے میں فقہاء کی آراء | 511 | |
کتابیات | 512 | |
باب 23 | ||
اسلام اور عدل اجتماعی | 513 | |
مفہوم | 513 | |
اسلام اور عدل اجتماعی | 513 | |
فرد اور معاشرہ کےدرمیان عدل | 513 | |
عدل سیاسی شعبہ میں | 514 | |
عدل معاشرت میں | 515 | |
عدل روحانیت میں | 516 | |
عدل اجتماعی کےذرائع | 519< |