اسلام میں عورت کے حقوق
مصنف : سید جلال الدین انصر عمری
صفحات: 202
اسلام نے عورت کو وہ بلند مقام دیا ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب نے نہیں دیا ہے۔دنیا کے مختلف مذاہب اورقوانین کی تعلیمات کا مقابلہ اگر اسلام کے اس نئے منفرد وممتازکردار(Role)سے کیا جائے، جو اسلام نے عورت کے وقار واعتبار کی بحالی، ا نسانی سماج میں اسے مناسب مقام دلانے، ظالم قوانین، غیر منصفانہ رسم و رواج اور مردوں کی خود پرستی، خود غرضی اور تکبر سے اسے نجات دلانے کے سلسلہ میں انجام دیا ہے، تو معترضین کی آنکھیں کھل جائیں گی، اور ایک پڑھے لکھےاورحقیقت پسند انسان کو اعتراف و احترام میں سر جھکا دینا پڑیگا۔اسلام میں مسلمان عورت کا مقام بلند اور مؤثر کردار ہے،اور اسے بےشمار حقوق سے نوازا گیا ہے۔اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا۔ ذلت کے بجائے عزت ورفعت سےسرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہم کنار کیا چنانچہ قرآن کا ”وراثت وحقوق نسواں“ یورپ کے ”قانون وراثت“اور ”حقوق نسواں“ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرت نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ عورتوں کے بارے میں اسلام کے احکام نہایت واضح ہیں، اس نے عورتوں کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو عورتوں کو تکلیف پہنچائے اور ان پر دھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے جتنا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے۔زیر تبصرہ کتاب ” اسلام میں عورت کے حقوق “ہندوستان کے معروف عالم دین سید جلال الدین عمری کی کاوش ہے جس میں انہوں نے حقوق نسواں کے حوالے سے مغرب کے اسلام پر کئے گئے اعتراضات کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے مغرب کے دوہرے معیار کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔اس میں انہوں نے آزادی نسواں کا مغربی تصور اور اس کے نتائج پر زبر دست بحث کی ہے۔اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین
عناوین | صفحہ نمبر | |
پیش لفظ | 11 | |
آزادی نسواں کا مغربی تصور اور اس کے نتائج | 15 | |
جنسی بے راہ روی | 17 | |
خاندان کی بربادی | 17 | |
حقوق اور ذمہ داریوں میں عدم توازن | 19 | |
عورت سے ہمدردی کے جذبہ میں کمی | 20 | |
مسلمان عورت کے حقوق | 23 | |
زندہ رہنے کا حق | 24 | |
پرورش کا حق | 26 | |
تعلیم کا حق | 27 | |
نکاح کا حق | 29 | |
مہر کا حق | 31 | |
نان و نفقہ کاحق | 34 | |
مال و جائداد کا حق | 35 | |
عزت و آبرو کا حق | 35 | |
تنقید و احتساب کا حق | 37 | |
اعتراضات کا جائزہ | 39 | |
ایک عمومی تبصرہ | 40 | |
مرد کی حکومت | 49 | |
میاں بیوی کا تعلق الفت و محبت کا تعلق ہے | 49 | |
مرد خاندان کا سربراہ کیوں ہے ؟ | 50 | |
مرد زیادہ قوت و صلاحیت رکھتا ہے | 51 | |
مالی بوجھ برداشت کرتا ہے | 52 | |
کیا عورت خاندان کی سربراہ ہو سکتی ہے ؟ | 53 | |
حجاب کی بندشیں | 55 | |
عورت کے اندر بےحجابی کا رجحان پیدا کیا گیا | 55 | |
مرد کالباس زیادہ ساتر ہے | 56 | |
حجاب فطری جذبات پر قدغن نہیں ہے | 56 | |
حدود حجاب کی بحث اور اس سے غلط استدلال | 59 | |
عورت کا معاشی مسئلہ | 61 | |
عورت کی معاشی جدوجہد | 61 | |
کم زور اور طاقت ور کا مقابلہ | 61 | |
کشمکش کا نتیجہ | 62 | |
عورت کا کیا کھویا کیا پایا ؟ | 62 | |
کیا دورجدید میں عورت کے لیے معاشی جدوجہد ضروری ہے | 63 | |
عورت کی معاشی حیثیت مستحکم ہے | 65 | |
عورت کی معاشی جدوجہد کے لیے بعض حدود | 66 | |
مہر کی نوعیت اور اس کے احکام | 68 | |
مہر کے ذریعہ عورت خریدی نہیں جاتی | 68 | |
مہر کی نوعیت | 68 | |
مہر خلوص کی دلیل ہے | 70 | |
مہر عطیہ ہے | 71 | |
مہر کا حکم قطعی اور ابدی ہے | 73 | |
مہر کی افادیت | 74 | |
مہر کی مقدار | 75 | |
مطلقہ کا مہر | 84 | |
عورت کو مہر میں تصرف کا حق ہے | 87 | |
تعدد ازواج | 89 | |
تعداد ازواج مرد کی ایک ضرورت | 90 | |
عورت کے لیے تعداد ازواج کی افادیت | 91 | |
عورت ایک سے زیادہ شوہروں کی متحمل نہیں ہے | 92 | |
تعداد ازواج عیاشی کے لیے نہیں ہے | 94 | |
قانونی اقدامات | 95 | |
چار کی تحدید | 95 | |
حکم نہیں صرف اجازت | 96 | |
طلاق کا مسئلہ | 101 | |
طلاق کی ضرورت پیش آ سکتی ہے | 102 | |
طلاق کاحق کسے حاصل ہو ؟ | 103 | |
عدالت کے ذریعہ طلاق کی قباحت | 104 | |
نکاح ایک سنجیدہ معاہدہ ہے | 105 | |
طلاق سخت ناپسندیدہ ہے | 106 | |
عورت کی کم زوریوں کوبرداشت کیا جائے | 107 | |
اصلاح کی کوشش کی جائے | 108 | |
طلاق سے روکنے کے لیے عورت اپنےحقوق چھوڑ سکتی ہے | 109 | |
طلاق کے سلسلے میں دو اصلاحی اقدامات | 111 | |
طلاق کس طرح دی جائے ؟ | 113 | |
حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے | 114 | |
عدت کے دوران شوہر کے گھر رہے گی | 115 | |
رجوع کاحق اور اس کا طریقہ | 116 | |
طلاق سے بے احتیاطی اور اس کا علاج | 117 | |
مطلقہ کانفقہ | 119 | |
بعض قباحتیں | 120 |