علم لغت‘اصول لغت اور لغات
مصنف : رؤف پاریکھ
صفحات: 196
لُغت (dictionary ڈکشنری ایک ایسی کتاب ہے جس میں کسی زبان کے الفاظ کو وضاحتوں، صرفیات، تلفّظات اور دوسری معلومات کے ساتھ بترتیبِ حروفِ تہجّی درج کیا گیا ہو یا ایک ایسی کتاب جس میں کسی زبان کے الفاظ اور کسی اور زبان میں اُن کے مترادفات کے ساتھ حروفِ تہجّی کی ترتیب سے لکھا گیا ہو۔ لغت میں کسی زبان کے الفاظ کو کسی خاص ترتیب کے لحاظ سے املا، تلفظ، ماخذ اور مادہ بیان کرتے ہوئے حقیقی، مجازی، یا اصطلاحی معنوں کے ساتھ درج کیا جاتا ہے۔ ضرورت کے مطابق الفاظ کی شکلوں میں تبدیلی اور صحیح محل استعمال کی وضاحت کی جاتی ہے۔لغت نویسی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ دو مختلف زبانوں کے بولنے والے افراد، گروہ یا جماعتیں، جب ایک دوسرے سے زندگی کے مختلف شعبوں میں ربط پیدا کرتی اور اسے برقرار رکھتی ہیں تو انھیں ایک دوسرے کی زبان کے الفاظ سیکھنے پڑتے ہیں۔ لُغات عموماً کتاب کی شکل میں ہوتے ہیں، تاہم، آج کل کچھ جدید لُغات مصنع لطیفی شکل میں بھی موجود ہیں جو کمپیوٹر اور ذاتی رقمی معاون پر چلتی ہیں۔ زیر نظر کتاب’’علمِ لغت، اصولِ لغت اور لغات‘‘ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے لغت نویسی اور لغات کے موضوع پر لکھے گئے مقالات پر مبنی کتاب ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا شمار پاکستان کے نامور اور ماہرِ لغت نویس اور ماہرِ لسانیات میں ہوتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو میں، اردو زبان و ادب کے پروفیسر ہیں۔یہ کتاب ’’علم لغت، اصولِ لغت اور لغات‘‘ نو تحقیقی مقالات پر مبنی کتاب ہے۔ان نو مقالات کا مختصراً تعارف حسب ذیل ہے ۔ اس کتاب کے پہلے مقالے کا عنوان ’’علمِ لغت ، لغوی معنیات اور اردو لغت نویسی‘‘ ہے۔ اس مقالے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ لغت نویسی کا تعلق علم لسانیات سے بھی ہے۔دوسرے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’تاریخی لغت نویسی اور تاریخی اصول پس منظر اور بنیاد (اوکسفرڈ کی لغت کلاں اور اردو لغت بورڈ کی لغت کے تناظر میں )‘‘ اس مقالے میں لغت کی مختلف تعریفوں کے ساتھ تاریخی لغت کی تعریف دی گئی ہے۔تیسرے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’خصوصی لغت نویسی اور اردو کی چند نادر اور کم یاب خصوصی لغات‘‘ اس مقالے میں خصوصی لغت کی تعریف کرتے ہوئے ی وضاحت کی گئی ہے کہ خصوصی لغت کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔چوتھے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’جان ٹی پلیٹس، مصنف نے اس مقالے میں پلیٹس کے حالات زندگی بیان کرنے کے بعد، پلیٹس کی لغت کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔پانچویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’قاموس الہند‘‘قاموس الہند پچپن (۵۵) جلدوں پر محیط اردو کی نادر ایک بسیط اور کثیر جلدی اردو بہ اردو لغت ہے۔چھٹے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’حالی کی شعری لفظیات اور اردو لغت بورڈ کی لغت‘‘ اس مقالے میں مصنف نے ان نادر قلیل الاستعمال الفاظ، تراکیب اور محاورات کی نشان دہی کی ہے جو متدادل لغات میں کم ہی ملتے ہیں۔ ساتویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’ اردو فارسی اور عربی کہاوتوں کی شعری اسناد‘‘ (جو اردو لغت بورڈ کی لغت میں درج نہیں ) اس مقا لے میں مصنف نے کہاوت اور محاورے کا فرق واضح کرتے ہوئے اردو، عربی فارسی کی ان کہاوتوں کو درج کیا ہے جن کا اندراج اردو لغت بورڈ کی لغت میں نہیں ہے۔ ان کہاوتوں کے معنی اور اشعار کی سند بھی پیش کی گئی ہے۔اس کتاب کے آٹھویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’فرہنگِ آصفیہ کی تدوین و اشاعت: چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ اس مقالے میں مصنف نے ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے حوالے سے جو غلط فہمیاں عام ہیں ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ س کتاب کے نویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’اٹھارہ سو ستاون سے قبل کی اردو شاعری میں یورپی زبانوں کے دخیل الفاظ‘‘اس مقالے میں مصنف نے ان یورپی الفاظ کی سند پیش کی ہے جو ۱۸۵۷ کے انقلاب سے قبل مختلف شعرا کے یہاں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ کتاب تحقیقی مقالہ جات کا مجموعہ ہے۔ لغت اور اس سے متعلق بیش تر موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اردو زبان وادب کے طلبہ، لغت سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک خوش آئند اضافہ ہے۔