قرآن پر اہل عرب نے بہت سے اعتراضات کیے اور ان کے یہ سارے اعتراض قرآن نے نقل بھی کیے ہیں لیکن ان کے اس طرح کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر نہیں لیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ناموں میں ان کے لیے کوئی اجنبیت نہیں تھی۔
علاوہ بریں جن لوگوں کی نظر اہل عرب کی روایات اور ان کے لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ اہل عرب نہ صرف یہ کہ اس طرح کے ناموں سے نامانوس نہیں تھے بلکہ وہ خود اشخاص، چیزوں، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں حتی کہ قصائد اور خطبات تک کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھتے تھے۔
یہ نام مفرد حروف پر بھی ہوتے تھے اور مرکب بھی ہوتے تھے۔ ان میں یہ اہتمام بھی ضروری نہیں تھا کہ اسم اور مسمی میں کوئی معنوی مناسبت پہلے سے موجود ہو بلکہ یہ نام ہی بتاتا تھا کہ یہ نام اس مسمی کے لیے وضع ہوا ہے۔ اور یہ ایک بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک شے کے متعلق یہ معلوم ہوگیا کہ یہ نام ہے تو پھر اس کے معنی کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ نام سے اصل مقصود مسمی کا اس نام کے ساتھ خاص ہوجانا ہے نہ کہ اس کے معنی، کم از کم فہم قرآن کے نقطہ نظر سے ان ناموں کے معانی کی تحقیق کی تو کوئی خاص اہمیت ہے نہیں۔
بس اتنی بات ہے کہ چونکہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے ہیں اس سے آدمی کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ضرور یہ کسی نہ کسی مناسبت کی بنا پر رکھے گئے ہوں گے۔ یہ خیال فطری طور پر طبیعت میں ایک جستجو پیدا کردیتا ہے۔ اسی جستجو کی بنا پر ہمارے بہت سے پچھلے علماء نے ان ناموں پر غور کیا اور ان کے معنی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ان کی جستجو سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا لیکن ہمارے نزدیک ان کا یہ کام بجائے خود غلط نہیں تھا اور اگر ہم بھی ان پر غور کریں گے تو ہمارا یہ کام بھی غلط نہیں ہوگا۔ اگر اس کوشش سے کوئی حقیقت واضح ہوئی تو اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوگا اور اگر کوئی بات نہ مل سکی تو اس کو ہم اپنے علم کی کوتاہی اور قرآن کے اتھاہ ہونے پر محمول کریں گے۔ یہ رائے بہرحال قائم کریں گے کہ یہ نام ہی بےمعنی ہیں۔ اپنے علم کی کمی اور قرآن کے اتھاہ ہونے کا یہ احساس بجائے خود ایک بہت بڑا علم ہے۔ اس احساس سے علم و معرفت کی بہت سی بند راہیں کھلتی ہیں۔ اگر قرآن کا پہلا ہی حرف اس عظیم انکشاف کے لیے کلید بن جائے تو یہ بھی قرآن کے بہت سے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہوگا۔ یہ اسی کتاب کا کمال ہے کہ اس کے جس حرف کا راز کسی پر نہ کھل سکا اس کی پیدا کردہ کاوش ہزاروں سربستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے دلیل راہ بنی۔
ان حروف پر ہمارے پچھلے علماء نے جو رائیں ظاہر کی ہیں ہمارے نزدیک وہ تو کسی مضبوط بنیاد پر مبنی نہیں ہیں اس وجہ سے ان کا ذکر کرنا کچھ مفید نہیں ہوگا۔ البتہ استاز امام مولانا حمید الدین فراہی (رح) کی رائے اجمالاً میں یہاں پیش کرتا ہوں۔ اس سے اصل مسئلہ اگرچہ حل نہیں ہوتا لیکن اس کے حل کے لیے ایک راہ کھلتی ضرور نظر آتی ہے۔ کیا عجب کہ مولانا نے جو سراغ دیا ہے دوسرے اس کی رہنمائی سے کچھ مفید نشاناتِ راہ اور معلوم کرلیں اور اس طرح درجہ بدرجہ تحقیق کے قدم کچھ اور آگے بڑھ جائیں۔
جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لیے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ عرب قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذ امام (رح) کی تحقیق یہ ہے کہ یہ انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرح صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیاء پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیاء پر وہ دلیل ہوتے تھے عموما انہی کی صورت ہیئت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ مولانا (رح) کی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جو قدیم مصریوں نے اخذ کیے اور اپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم و اصلاح کر کے ان کو اس خط تمثالی کی شکل دی جس کے آثار اہرام مصر کے کتبات میں موجود ہیں۔ ان حروف کے معانی کا علم اب اگرچہ مٹ چکا ہے تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً ” الف ” کے متعلق معلوم ہے کہ وہ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سر کی صورت ہی پر لکھا جاتا تھا۔ ” ب ” کو عبرانیت میں بیت کہتے ہیں اور اس کے معنی بھی ” بیت ” (گھر کے ہیں) ۔ ” ج ” کا عبرانی تلفظ جیمل ہے جس کے معنی جمل (اونٹ) کے ہیں۔ ” ط ” سانپ کے معنی میں آتا تھا اور لکھا بھی کچھ سانپ ہی کی شکل پر جاتا تھا۔ ” م ” پانی کی لہر پر دلیل ہوتا تھا اور اس کی شکل بھی لہر سے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔ مولانا اپنے نظریہ کی تائید میں سورة ” ن ” کو پیش کرتے ہیں۔ حرف ” نون ” اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جو سورة اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر ” صاحب الحوت ” (مچھلی والے) کے نام سے آیا ہے۔ مولانا اس نام کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طور پر اس طرف جاتا ہے کہ اس سورة کا نام ” نون ” (ن) اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت (یونس علیہ السلام) کا واقعہ بیان ہوا ہے جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ پھر کیا عجب ہے کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں وہ بھی اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بنا پر آئے ہوں۔
قرآن مجید کی بعض اور سورتوں کے ناموں سے بھی بھی مولانا کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً حرف ” ط ” کے معنی، جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے، سانپ کے تھے اور اس کے لکھنے کی ہیئت بھی سانپ کی ہیئت سے ملتی جلتی ہوتی تھی۔ اب قرآن میں سورة طٰہ کو دیکھیے جو ” ط ” سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں ایک مختصر تمہید کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی لٹھیا کے سانپ بن جانے کا قصہ بیان ہوتا ہے۔ اسی طرح طسم، طس وغیرہ بھی ” ط ” سے شروع ہوتی ہیں اور ان میں بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لٹھیا کے سانپ کی شکل اختیار کرلینے کا معجزہ مذکور ہے۔ ” الف ” کے متعلق ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ گائے کے سر کی ہیئت پر لکھا بھی جاتا تھا اور گائے کے معنی بتاتا بھی تھا۔ اس کے دوسرے معنی اللہ واحد کے ہوتے تھے۔ اب قرآن مجید میں دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ سورة بقرہ میں، جس کا نام الف سے شروع ہوتا ہے، گائے کے ذبح کا قصہ بیان ہوا ہے۔ دوسری سورتیں جن کے نام الف سے شروع ہوئے توحید کے مضمون میں مشترک نظر آتی ہیں۔ یہ مضمون ان میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان ناموں کا یہ پہلو بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن سورتوں کے نام ملتے جلتے سے ہیں ان کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں بلکہ بعض سورتوں میں تو اسلوب بیان تک ملتا جلتا ہے۔ میں نے مولانا کا یہ نظریہ، جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، محض اس خیال سے پیش کیا ہے کہ اس سے حروف مقطعات پر غور کرنے کے لیے ایک علمی راہ کھلتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی حیثیت ابھی تک ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک تمام حروف کے معانی کی تحقیق ہو کر ہر پہلو سے ان ناموں اور ان سے موسوم سورتوں کی مناسبت واضح نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کرلینا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ محض علوم قرآن کے قدر دانوں کے لیے ایک اشارہ ہے، جو لوگ مزید تحقیق و جستجو کی ہمت رکھتے ہیں وہ اس راہ میں قسمت آزمائی کریں۔ شاید اللہ تعالیٰ اس راہ سے یہ مشکل آسان کردے۔
تدبر القرآن