چیچنیا میں اسلام اور مسلمان
مصنف : ڈاکٹر سید محمد یونس
صفحات: 137
چیچنیا قفقاز کے شمال مشرق میں واقع ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست ہے ۔ اس کی سرحدیں شمال مغرب میں روسی کرائی ستاوروپول کرائی ، شمال مشرق میں داغستان ، جنوب میں جارجیا گرجستان اور مغرب میں انگوشتیا اور شمالی اوسیتیا سے ملتیں ہیں ۔ چیچن جمہوریہ اشکیریہ کے قیام کا اعلان جوہر دودائیف نے 1991ء میں کیا ۔ چیچنیا اور انگوشیا ایک ہی ملک تھے ۔لیکن روسی حکومت نے سازش کے تحت انگوشیا کو الگ کردیا تاکہ چیچنیا کی افرادی قوت کم ہوجائے اور یہاں کے مجاہدین پر قابو پانا آسان ہوجائے ۔1991ء کے اعداد وشمار کے مطابق یہاں کی کل آبادی 15لاکھ سے متجاوز تھی جس میں دس لاکھ مسلمان تھے ۔دینی اعتبار سے یہاں کے باشندے حنفی مسلک کے ماننے والے راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہیں۔روس نےدیگر مسلم علاقوں کی طرح یہاں بھی مسلمانوں کی عملی زندگی سے دین اسلام اور اسلامی تہذیب تمدن کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ اسلامی عبادات کی ادائیگی ، اسلامی روایات کی پابندی ، عربی زبان یہاں تک کہ عربی حروف کے استعمال کو بھی قانوناً ممنوع قرار دیا۔ ان تمام تر پابندیوں کے باوجود یہاں کے مسلمانوں نےنہ صرف یہ کہ دین اسلام سے اپنے ریشے کو قائم رکھا بلکہ خفیہ طور پر نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تعلیم وتربیت کا ایسا انتظام کیا کہ ان ذہنوں میں دین اسلام کی عظمت اور اسلامی تہذیب وتمدن کی بالادستی گھر کرگئی۔ سویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد 1991ء میں اپنی آزادی اور اسلام پسندی کا اعلان کرنے والا یہ چھوٹا سا اسلامی ملک چیچنیا بھی ایک عرصے سے اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کا شکار ہےاور یہاں کے مسلم مجاہدین اپنی بے سروسامانی اور جنگی وسائل وذرائع کی کمی کے باوجود جدید ترین اسلحوں سے لیس روس کی برّی وفضائی فوجوں کے وحشیانہ حملوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔زیر نظر کتاب ’’ چیچنیا میں اسلام اور مسلمان ‘‘ ڈاکٹر محمد یونس کی عربی تصنیف ’’ المسلمون فی جمهورية الشاشان وجهادهم فی مقاومة الغزو الروسي ‘‘ كا اردو ترجمہ ہے ۔اس كتاب کو جناب ڈاکٹر محمد سمیع اختر نےاردو قالب میں ڈھالا ہے۔ڈاکٹر سید محمد یونس کی یہ کتاب چیچنیا کےماضی اور حال کا منظر نامہ پیش کرتی ہے ۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ قدیم تاریخی ذخائر کو کھنگالتے ہوئے اس ملک کے ابتدائی وارتقائی مراحل سے بحث کی ہے۔ یہاں آباد قدیم عیسائی قوموں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح اسلام کی شعائیں خلفائے راشدین کے دور میں قفقاز کے علاقے تک پہنچ چکی تھیں۔ اور پھر کس طرح یہاں کی آبادی نے مسلم فاتحین کا استقبال کیا تھا اور اسلام کے عدل ومساوات اور انسان دوستی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا تھا اور کچھ ہی سالوں میں یہاں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہوگیا۔فاضل مصنف نےمستند تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کمیونسٹ انقلاب سے قبل بھی یہاں کےعلماء کرام اور صوفیائے عظام نے نہ صرف یہ کہ دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کی بلکہ صلیب زدہ قیصر روس کی فوجوں سے سالہاسال تک عملی جہاد بھی کیا۔ اسی طرح یہاں کےراسخ العقیدہ مسلمانوں نے دین اسلام کے تحفظ اور اپنی آزادی وخود مختاری کی حفاظت کو ہمیشہ ترجیح دی۔نیز فاضل مصنف نے بعض شہروں میں روسی فوج کے ہاتھوں ہونے والے انسانیت سوز وحشیانہ جرائم کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جن کو پڑھ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں کہ چیچنیا میں روسی فوجوں کی درندگی کودیکھ کر خود روسیوں نے اپنی فوج کو وحشی جانور قرار دیا ہے ۔