القواعد الفقہیہ

القواعد الفقہیہ

 

مصنف : محمد بن صالح العثیمین

 

صفحات: 170

 

وہ علم جس  میں احکام کے مصادر ،ان کے دلائل کے ، استدلال  کے  مراتب اور استدلال کی شرائط سےبحث کی جائے اوراستنباط کے طریقوں کووضع کر کے  معین قواعد کا استخراج کیا جائے  کہ جن قواعد کی پابندی کرتے ہوئے  مجتہد  تفصیلی  دلائل سے احکام  معلوم کرے ، اس علم کا  نام اصول فقہ ہے ۔علامہ  ابن خلدون کے بقول اس وجہ سے یہ علم علوم شریعت میں سے  سب سے عظیم، مرتبے میں سب سے بلند اور  فائدے کے اعتبار سے سب سے زیادہ معتبرہے (مقدمہ ابن خلدون ص:452)جس طرح کسی بھی زبان کو جاننے کےلیے  اس زبان کے قواعد واصول  کو سمجھنا ضروری ہے  اسی طر ح فقہ میں مہارت حاصل  کرنےکے لیے قواعد فقہیہ و  اصول  فقہ  میں دسترس  اور اس پر عبور حاصل کرناضروری ہے  اس علم کی اہمیت  کے  پیش نظر  ائمہ فقہاء و محدثین نے  اس موضوع پر  کئی کتب تصنیف کی ہیں اولاً  امام شافعی نے الرسالہ کے  نام سے    کتاب تحریرکی  پھر اس کی روشنی میں  دیگرقدیم اہل  علم نے کتب  مرتب کیں ہیں۔ عصر حاضر میں اس میدان میں کام کرنےوالے اہل علم میں سے  ایک نمایاں نام ڈاکٹر عبد الکریم زیدان  کا ہے۔ اصول فقہ  پران کی  مایۂ کتاب ’’ الوجیز فی اصول الفقہ‘‘ اسی اسلوب کی نمائندہ کتاب ہے  اور اکثر مدارس دینیہ میں شامل نصاب  ہے ۔ زیر نظر کتاب’’ القواعد الفقہیۃ‘‘مشہور سعودی عالم دین  فضیلۃ  الشیخ  محمد بن  صالح العثیمین﷫ کی تصنیف ہے شیخ  موصوف نے قرآن وسنت کی روشنی میں ایسے قواعد   اس کتاب میں پیش کیے ہیں  کہ جو امت کودین اسلام کی منشیٰ  ومراد جاننے کے لیے آسان  طریقہ سے شافی وکافی رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ ان فقہی قواعد کی خوبی  یہ ہےکہ ان کامرجع و ماخذ قرآن وحدیث ہے ۔ فاضل نوجوان  جناب افضل سہیل  ﷾ نے شیخ صالح عثیمین﷫ کی اس کتاب کو بنیاد بنا کر  اس میں بہت سے مفید اضافہ جات کرنے  کے علاوہ   اس کا سلیس اردو ترجمہ اور تحقیق وتخریج  کا  معیاری کام کر کے   اسےایک نئی  کتاب کےروپ میں  پیش کیا ہے۔ جس سے کتاب کی افادیت  دو چند ہوگئی ہے۔ اردو زبان  میں فقہ  کے  175ہم قواعد پر مشتمل یہ  کتاب مدارس دینیہ کے طلبہ  اور علماء کرام کےلیے گرانقدر  تحفہ ہے ۔

 

عناوین صفحہ نمبر
حرف تمنا 9
قواعدد فقہیہ کاتعارف 10
تقریظ از : [محمد مالک بھنڈر﷾] 10
تقریظ از : [رحمت اللہ شاکر﷾] 21
تقریظ از : [حکیم اشفاق احمد﷾] 23
قاعدہ 1:دین آیاہےانسانوں کی خوش بختی کے لیے ( اور ان سے شر اور نقصان دور کرنے کے لیے ) 24
قاعدہ2: نہ ضرر پہنچے اور نہ ضرر پہنچایا جائے 25
قاعدہ3: مفاسد کو رفع کرنا حصول منفعت سے اولیٰ ہے 28
قاعدہ4: دینی تکالیف آسان ہیں 31
قاعدہ5: جب کبھی مشقت ہو گی تو اس کے ساتھ سہولت بھی ہو گی 32
قاعدہ6: تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو جتنی تم طاقت رکھو 38
قاعدہ7: شرع نہیں لازم ہوتی علم سے پہلے 40
قاعدہ8: جہالت محل نظر ہے 43
قاعدہ9، 10: ضرورت کےوقت حرام چیز مباح ہو جاتی ہے 44
قاعدہ11: نہی فساد کا تقاضا کرتی ہے 51
قاعدہ12: ہر نہی ( ممانعت) لوٹنے والی ہے ذات کی طرف 54
قاعدہ13: اشیاء میں اصل حلت ہے 55
قاعدہ14: عبادت میں اصل چیز منع ہے 57
قاعدہ15: شک کے وقت اصل کی طرف رجوع کرنا 59
قاعدہ16: امر اور نہی کی اصل ، یقین اور پختگی پر ہے 60
قاعدہ17: مندوب 61
قاعدہ18: نبی کریم ﷺ کا فعل 64
قاعدہ19: جب مصالح متعارض ہوں تو اعلیٰ کو مقدم کیا جائے گا 66
قاعدہ20: جب دو ضرر متعارض ہوں تو تم ( شدید ضرر کا)ازالہ کرو اخف کے ساتھ 68
قاعدہ21: جب مباح اورحرام چیزیں اکٹھی ہوں تو حرام کا پہلو غالب ہو گا 70
قاعدہ22:حکم کا دارومدار علت پر ہے وجود عدم کے اعتبار سے 72
قاعدہ23: شئی جب سبب یا شرط پر مقدم ہو ( تو کیا حکم ہے ؟ ) 74
قاعدہ24: شئی پوری نہیں ہوتی مگر یہ کہ اس کی شروط پوری ہوں 76
قاعدہ25: ظن معتبر ہے عبادات میں 78
قاعدہ26: عبادت سے فراغت کے بعد شک مؤثر نہیں ہوتا 81
قاعدہ27: دل اورنفس کی باتیں معاف ہیں مگر جب اس پر عمل یا کلام ہو 83
قاعدہ28: امر فور ( فوری طور پر عمل) کے لیے آتا ہے 84
قاعدہ29: فرض عین اور فرض کفایہ 86
قاعدہ30: جب امر واقع ہو نہی کے بعد تو وہ اباحت کے لیے ہے 87
قاعدہ31: عبادت کا مختلف طریقوں سے وارد ہونا 89
قاعدہ32: سنت کو لازم پکڑنا 90
قاعدہ33: صحابی کاقول 92
قاعدہ34: ادلہ احکام چار ہیں 93
قاعدہ35: ہر عمل کرنے والے کےلیے وہی ہے جواس نے نیت کی 99
قاعدہ36: حرام ہے جاری رہنا اس میں جو فاسد ہو جائے 103
قاعدہ37: نفل کو قطع کرناجائز ہے اس کوشروع کرنے کے بعد 105
قاعدہ38: گناہ اور ضمان (ذمہ داری ) دونوں جہالت کے ساتھ ساقط ہو جاتے ہیں 107
قاعدہ39: ہر تلف شدہ شئی تواس کا تاوان ضائع کرنے والے کے ذمہ ہے 110
قاعدہ40: ضمان مثل کے ساتھ ہے 112
قاعدہ41: جوچیز ماذون پر مترتب ہو اس کا ضمان اور تاوان نہیں ہے 113
قاعدہ42: احسان کرنےوالے پر کوئی الزام کی راہ نہیں ہے 114
قاعدہ43: عقود کی دو اقسام ہیں 116
قاعدہ44: عرف 117
قاعدہ45: جو چیزعرف عام میں بہت جانی جاتی ہے وہ طے شدہ شرط کی طرح ہے 119
قاعدہ46: تمام عقود ضروری ہے کہ اس شخص کی طرف سے ہوں جوان کا مالک ہے 121
قاعدہ47:جس کی رضا غیر معتبر ہےاس کاعلم بھی غیر معتبر ہے 122
قاعدہ48:دعویٰ فساد غیر مقبول ہے 123
قاعدہ49:ہر چیز کا حس انکار کرے تو وہ دعویٰ قابل سماعت نہیں ہے 124
قاعدہ50: مدعی پر دلیل ضروری ہے 125
قاعدہ51:امین وہ ہے جس کے ہاتھ میں عین چیز حاصل ہو 128
قاعدہ52:جو تلف کا دعویٰ کرے حالانکہ وہ امین ہے تواس کا دعویٰ مقبول ہے 129
قاعدہ53:ہر وہ شخص جس کا قول مقبول ہو تو وہ قسم اٹھائے 130
قاعدہ54:توادا کر امانت اس کو جس نے تجھے امانت دی اور مت خیانت کر اس سے جو تجھ سے خیانت کرے 131
قاعدہ55:جائز ہے اس آدمی کا مال لینا جو اس کو روکے 132
قاعدہ56: شئے کا حکم کبھی ثابت ہوتا ہے کسی دوسری شئے کے تابع ہو کر 134
قاعدہ57: ہر شرط جوذکر کرنے کے ساتھ عقد کو فاسد کرے وہ شرط عقد کو نیت کے ساتھ بھی فاسد کردے گی 135
قاعدہ58: ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے 137
قاعدہ59: ہر مشغول شئے کو دوسری چیز میں مشغول نہیں کیا جاسکتا 139
قاعدہ60: بےشک مبدل لہ کا حکم مبدل کا سا ہے 140
قاعدہ61:بسا اوقات مفضول افضل ہو جاتا ہے 141
قاعدہ62: استدامہ (برقرار رہنا ، مسلسل رہنا ) زیادہ قوی ہے ابتداء سے 142
قاعدہ63:کسی چیز کی جو حالت پہلے تھی اسی کو باقی رکھنا اصل ہے 143
قاعدہ64:نفی وجود کے لیے پھر صحت کے لیے پھر کمال کے لیے آتی ہے 145
قاعدہ65:قیود اصل میں احترازی ہوتی ہیں 146
قاعدہ66: جب یقین متعذر (مشکل) ہوتورجوع غلبہ ظن کی طرف کریں گے 148
قاعدہ67:قرعہ ڈالنا 149
قاعدہ68:جو آدمی کسی شئی کو قبل از وقت حاصل کرنا چاہیے اسے اس شئی سے محرومی کی سزا دی جائے گی 153
قاعدہ69:جس آدمی کےسے کی مانع پائے جانے کی وجہ سے سزا ساقط ہو جائے اس بر تاوان دو گناہ ڈالا جائے گا 154
قاعدہ70:جو چیز زندہ سے الگ کر لی جائے تو وہ اس زندہ کے مردار ہونے کی طرح ہے طہر میں اور حلال ہونے میں 156
قاعدہ71:کان اکثر دوام کے لیے آتا ہے 158
قاعدہ72:وہ صیغے جو عموم کے لیے آتے ہیں 160
قاعدہ73:نکرہ اثبات کےتحت عموم کے لیے نہیں ہوتا 162
قاعدہ74:اعتبار لفظ کے عموم کا ہو گا نہ کہ سبب نزول کے خاص واقعہ کا 164
قاعدہ75: عام کو خاص کے ساتھ مخصص کیا جائے گا 167

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
10.5 MB ڈاؤن لوڈ سائز

You might also like