یہودیت قرآن کی روشنی میں
مصنف : سید ابو الاعلی مودودی
صفحات: 308
حضرت نوح کے بعد حضرت ابراہیم پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نےاسلام کی عالمگیر دعوت پھپلانے کےلیے مقرر کیا تھا ۔ انہوں نے پہلے خود عراق سے مصر تک اور شام و فلسطین سے ریگستان عرب کے مختلف گوشوں تک برسوں گشت لگا کر اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف لوگوں کو دعوت دی ۔حضرت ابراہیم کی نسل سے دوبڑی شاخیں نکلیں۔ ایک حضرت اسماعیل کی اولاد جوعرب میں رہی۔قریش اور عرب کے بعض دوسرے قبائل کاتعلق اسی شاخ سے تھا۔دوسرے حضرت اسحاق کی اولاد جن میں حضرت یعقوب، یوسف، موسیٰ،داؤد، سلیمان،یحییٰ ،عیسیٰ اور بہت سے انبیاء پیدا ہوئے ہوئے۔حضرت یعقوب کا نام چونکہ اسرائیل تھا اسی لیے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔حضرت یعقوب کےچار بیویوں سے بارہ بیٹے تھے۔حضرت یو سف اور ان کے بعد بنی اسرائیل کو مصرمیں بڑا اقتدار نصیب ہوا۔مدت دراز تک یہی اس زمانے کے مہذب دنیا کے سب سے بڑے فرماں روا تھے۔اور ان ہی کاسکہ مصر اوراس کے نواح میں رواں تھا۔اصل دین جو حضرت موسیٰؑ اور اسے پہلے اور بعد کے انبیاء لائے تھے وہ تو اسلام ہی تھا ۔ان انبیاء میں سے کوئی بھی یہودی نہ تھا اورنہ ان کےزمانے میں یہودیت پیدا ہوئی تھی۔یہ مذہب اس نام کے ساتھ بہت بعد کی پیدا وار ہے ۔یہ اس خاندان کی طرف سے منسوب ہے جو حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے یہودا کی نسل سے تھا ۔حضرت سلیمانؑ کے بعد جب ان کی سلطنت دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تو یہ خاندان اس ریاست کامالک ہوا جو یہودیہ کےنام سے موسوم ہوئی اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کرلی جو سامریہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پھر اسیریا نے نہ صرف یہ کہ سامریہ کو برباد کردیا بلکہ ان اسرائیلی قبیلوں کا بھی نام ونشان مٹادیا جو اس ریاست کے بانی تھے ۔ اس کے بعد صرف یہودا اوراس کے ساتھ بنیامین کی نسل ہی باقی رہ گئی جس پر یہود اکی نسل کےغلبے کی وجہ سے یہود کےلفظ کا اطلاق ہونے لگا۔اس نسل کے اندر کاہنوں ،ربیوں اورااحبار نےاپنے اپنے خیالات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم او رمذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صد ہابرس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے ۔اللہ کےرسولوں کی لائی ہوئی ربانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے اور اس کا حلیہ بھی اچھا خاصا بگڑ چکا ہے ۔ اسی بناپر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو الذین ھادوا کہہ کر خطاب کیا گیا ہے یعنی اے وہ لوگو جو یہودی بن کر رہ گئے ہو۔قرآنک میں جہاں بنی اسرائیل کو خطاب کیاگیا ہے وہاں بنی اسرائیل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جہاں مذہب یہود کےپیروکاروں کوخطاب کیا گیا ہے وہاں الذین ھادوا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’یہودیت قرآن کی روشنی میں‘‘ ‘‘ مفکرِ اسلام سید ابو الاعلیٰ مودودی (بانی جماعت اسلامی ) کی تصنیف ہے جسے مولانا کی مختلف تحریروں کوان کے وسیع لڑیچر میں سے یکجا کر کے ترتیب دیا گیا ہے جو کہ اپنے موضوع پر جامع معلومات کی بنا پر ایک مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا مودودی کی تحریروں سے اس کتاب کوترتیب دنیے کے فرائض محترم نعیم صدیقی اور مولانا عبد الوکیل علوی ﷾ نے انجام دئیے ۔اللہ تعالیٰ سیدمودودی اور مرتبین کتاب ہذاکی دین اسلام کی اشاعت کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین)
عناوین | صفحہ نمبر | |
باب 1 | ||
نبی اسرائیل حضرت ابراہیم سے حضرت یوسف تک | 19 | |
فصل 1: تعارفی توضیحات | 21 | |
حضرت ابراہیم کی نسل کی دوشاخیں | ||
بنی اسرائیل کی وجہ تسمیہ | ||
نبی اسرائیل کا وسیع و عظیم ماضی | ||
یہودیت کی ابتداء اور وجہ تسمیہ | ||
فصل 2: حضرت یوسف کےدورعروج میں بنی اسرائیل کی نو آبادکاری | 24 | |
مصر میں چروا ہے بادشاہوں کا دورحکومت | ||
حضرت یوسف کا دور اقتدار | ||
بائبل کا بیان | ||
فصل 3: دور یوسف کے بعد کیا گزری ؟ | 28 | |
نبی اسرائیل پر فراعنہ کے مظالم | ||
بائبل سے ایک ضروری اقتباس | ||
باب 2 | ||
بعثت موسیٰ کےبعد | 31 | |
فصل 1: بعثت موسیٰؑ کے وقت بنی اسرائیل کا حال راز | 33 | |
دعوت موسی سے اکابر و اشراف کا گریز | ||
فصل 2: دربار فرعون میں موسیٰ کے دعوت | 36 | |
فرعون کا ردعمل | ||
فصل 3: دور موسیٰ میں بنی اسرائیل پر فرعونی مظالم | 39 | |
فرعون کے عہد میں ان کی غلامانہ حیثیت | ||
بنی اسرائیل کی رہائی کےلیے موسیٰ کا مطالبہ | ||
فصل4: مصر سے نبی اسرائیل کا خروج | 42 | |
فصل 5: خروج کے احوال | 43 | |
فرعون کا تعاقب | ||
فرعون کی غرقابی | ||
ایک ضمنی بحث | ||
فصل 6: بنی اسرائیل پر دور غلامی کے اثرات | 47 | |
فصل 7: عطائے شریعت | 49 | |
کوہ طور پر حضرت موسیٰؑ کی پہلی طلبی | ||
الواح پر لکھے ہوئے احکام | ||
فصل8: گوسالہ پرستی کافتنہ | 51 | |
گائے بیل کی پرستش کا رواج عام | ||
کوہ طور سے واپسی اور فتنہ کی تحقیقات | ||
پیروان سامری کاعذر | ||
سامری کی فتنہ طرازی اور اس کی سزا | ||
گوسالہ پرستی پر نبی اسرائیل کا معافی مانگنا | ||
شرک کےمجرمین کو سزا | ||
فتنہ کی بیخ کنی کے بعد تنظیم نو | ||
فصل 9: بیابان سینا میں اللہ تعالیٰ کے احسانات | 58 | |
تین بڑے احسانات | ||
من سلوی کانزول | ||
مزید تفصیل | ||
فصل10: خدائی احسانات کےجواب میں بنی ا سرائیل کا ٹیڑھا رویہ | 62 | |
بےصبر ہوکر شہر غذائیں مانگتے ہیں | ||
ایک نبی کی فتح اور بنی اسرائیل کی کردار | ||
گائے ذبح کرنے کاحکم اور ان کی حیلہ جوئی | ||
قتل کی ایک واقعہ | ||
بیت المقدس میں داخلےکاحکم | ||
نبی اسرائیل کی دوں ہمتی | ||
فصل 11:بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ کی آخری وصیتیں | 69 | |
بائبل کی آپ کی روایت شدہ تقریر | ||
باب 3 | ||
یہود کا بگاڑاور اس کے نتائج | 72 | |
فصل 1: یہود کا اخلاقی تنزل اور سیاسی پراگندگی | 74 | |
تفرقہ و تصادم اور اس کے نتائج | ||
یہودی حکومت کا قیام اور تباہی بائبل میں یہودیون کے اخلاقی تنزل کا ریکارڈ | ||
ہوسیع نبی کا بیان یسیعیاہ نبی کا بیان | ||
میکاہ نبی بیان | ||
متذکرہ بیانات کا ماحصل | ||
انبیاء کی مساعی اصلاح | ||
فصل 2: انبیاء کی مسلسل تنبیہات | 80 | |
تنبیہہ جو بار بار کی جاتی رہی | ||
حضرت داؤد کی زبان سے اولین تنبیہہ | ||
پہلے فساد کےظہور پرتباہی کے خبر حضرت یسیعیاہ ہوں دیتے ہیں | ||
آخری لمحے پر یرمیاہ نبی کی آواز | ||
حزقی ایل نبی کا یہود سے خطاب | ||
دوسرے فساد کے متعلق حضرت عیسیٰ کا انتباہ | ||
فصل 3: یہود کے ایمانی اور ا خلاقی بگاڑ پر قرآن کی مزید توضیحات | 87 | |
یہودی علماء اور درویشوں کی پستیاں | ||
یہود میں کثرت سوال کی بیماری | ||
علم کتاب اللہ کو مقید کرنے کا جرم | ||
کلام الہٰی میں تحریف کلمات میں تین صورتیں | ||
کلام اللہ میں الٹ پھیر | ||
یہود توراۃ کا تحفظ نہ کر سکے | ||
عقیدہ آخرت میں خرابی | ||
اخروی نجات کے متعلق زعم اجاہ داری | ||
ان کا ایک گروہ آخرت کا منکر تھا | ||
بدعملی کے باوجود اخروی کا مرانی عقیدہ | ||
آخرت میں ہمیں سزا ہوگی بھی تو معمولی ہو گی | ||
عوام علم سے محروم اور مفروضات میں لگن تھے | ||
خدا کی جہیتی مخلوق | ||
غیر یہودیوں سے جوسلوک چاہیں کریں | ||
یہودیوں کا اچھا عنصر | ||
ضابطہ سب میں نقب زنی | ||
قتل انبیاء کا جرم | ||
یہود کی طرف سے قتل انبیاء کا اقرار | ||
باب4 | ||
جنگ کےمتعلق یہودیوں کے نظریات | 107 | |
فصل1: ان کے مذہب کی رو سے ان کا مقصد جنگ اور قوانین جنگ | 109 | |
مقصد جنگ | ||
حدود جنگ | ||
باب 5 | ||
حضرت موسیٰ سے حضرت داؤد تک | 117 | |
فصل 1: یہود کا مطالبہ بادشاہت اوراس کے نتائج | 119 | |
سموئیل نبی سے بادشاہ کے تقرر کا تقاضا | ||
سموئیل نبی کا انتباہ | ||
خدا کی طرف سے بادشاہ مقرر کر دیا گیا | ||
قرآن کا بیان | ||
تابوت سکینہ | ||
واقعہ نہر میں ان کی بے صبری کی مثال | ||
اسرائیلیوں کا جالوت پر غالب آنا | ||
حضرت داؤد ؑکی بہادری | ||
فصل2: غلبہ فلسطین سے جملہ بخت نصر تک (اس دور کا مجموعی جائزہ ) | 129 | |
فلسطین میں یہودیت کاابتدائی دور | ||
ہدایت کو فراموش کر دیا گیا | ||
پہلا خمیازہ | ||
دوسرا خمیازہ | ||
یہودی سلطنت دوٹکڑوں میں بٹ گئی | ||
ریاست سامریہ پر کیا گزری ؟ | ||
یہود پر بخت نصر کا تباہ کن حملہ | ||
فصل 3: حضرت الیاسؑ کی اصلاحی اور انتباہی مساعی | 131 | |
نبی اسرائیل کے جلیل القدر نبی | ||
بائبل میں حضرت الیاس ؑ کا تذکرہ | ||
حضرت الیاس ؑ کی دعوت اورانتباہ اورمعجزات | ||
حضرت الیاس ؑ کو ملک بدر کر دیا گیا | ||
یہودیہ میں حضرت الیاس ؑکی دعوتی مہم | ||
حضرت الیاس کی پیشن گوئی پوری ہو کر رہی | ||
یہودیوں کا دیوتا ’’بعل‘‘ | ||
فصل4: دور داؤدؑ اور سلیمانی ؑ میں یہود کا عروج | 137 | |
حضرت داؤد ؑکےدور میں فولادی صنعت | ||
لوہے کے استعمال کا دور جدید تحقیقات کی روشنی میں | ||
حضرت سلیمان ؑ کا دورنبوت و حکومت | ||
ہوائی تسخیر و بحری بیڑہ | ||
حضرت سلیمان کے لیے تسخیر جنات | ||
جدید زمانے کا ایک مغالطہ | ||
ملکہ سبا کا ایمان لانا | ||
عہد عتیق میں متذکرہ قصے کا ایک خلاصہ | ||
قرآن اور عہد نامہ عتیق کے بیان میں مماثلت | ||
فصل 5: یہودی بابل کی اسیری کے زمانے میں | 144 | |
قصہ ہاروت و ماروت | ||
دوسروں کی بیویاں ہتھیانے کا فتنہ | ||
فصل 6: بابل کی اسیری سےنجات کے بعد حضرت عیسیٰؑ تک کادور | 148 | |
یہود کوایک اور مہلت اصلاح دی گئی | ||
نقشہ و احوال پلٹ گیا | ||
ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا گیا | ||
حضرت عزیر ؑکا زمانہ تجدید اصلاح | ||
یونانیون کا فلسطین پر قبضہ | ||
یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کی مہم | ||
مکابی تحریک اور اس کی کامیابی | ||
مکابی تحریک کا زوال اور رومی دور اقتدار | ||
باب 6 | ||
حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰ کادور اور یہود کا دوسرا فساد عظیم | 153 | |
فصل 1: یہودیوں کی اصلاح کے لیے حضرت یحییٰ کی مساعی | 155 | |
حضرت زکریا کو بیٹے کی بشارت | ||
بیانان میں پکارنے والے کی آواز | ||
یوحنا بپتسمہ دینےوالا | ||
ان کی تعلیمات | ||
یہودی فرماں روا کے ہاتھون حضرت یحییٰؑ کا قتل | ||
فصل2: حضرت عیسیٰ کی مساعی اصلاح اور یہودی کامعاندانہ رویہ | 158 | |
حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدائش کی بشارت | ||
حضرت مریم کہیں دور چلی جاتی ہیں | ||
حضرت مریم کی پریشانی | ||
حضرت عیسیٰ کی ولادت کےبعد حضرت مریم کی ہدایت | ||
حضرت مریم ؑ اپنی قوم کے سامنے | ||
گہوارے میں حضرت عیسیٰؑ کا قوم کو جواب دینا | ||
حضرت عیسیٰؑ یہودویں کے لیے رسول اور نمونہ مقرر کیے گئے | ||
حضرت عیسیٰؑ کی دعوت | ||
دین موسیٰ کےمصداق تہے | ||
یہود پر حضرت عیسیٰ کی تنقید | ||
شریعت سے یہود کے انحراف کی ایک مثال | ||
یہود نے دعوت عیسیٰ کو رد کر دیا | ||
یہودیوں کا زعم باطل کہ مسیح ؑ کو صلیب دی گئی | ||
حضرت عیسیٰؑ کی دعوت اور یہودکی گمراہی | ||
یہودی حضرت عیسیٰؑ کا انکار کیوں کرتے ہیں ؟ | ||
فصل3: یہودیوں کادوسرا فساد عظیم | 172 | |
فلسطینی ریاست کی تقسیم | ||
دوسرا فساد عظیم اور اس کی پاداش | ||
باب7 | ||
اپنے ابنیاء کے متعلق یہود کی تہمتیں اور غلط بیانیاں | 175 | |
فصل 1:انبیاء پر یہودیون کے لگائے ہوئے داغ اور قرآن | 177 | |
فصل2: حضرت لوط | 180 | |
فصل 3: حضرت اسماعیل | 182 | |
قرآن حضرت اسماعیل ؑ کی ذبیح قرار دیتا ہے | ||
بائبل کی تضاد بیانی | ||
اسلامی روایات میں اختلافات کی حقیقت | ||
حضرت اسماعیل کے ذبیح ہونے کے ولائل | ||
حضرت عمر بن عبد العزیز کی ایک مجلسی بحث | ||
فصل 4: حضرت یعقوب | 189 | |
فصل 5: حضرت یوسف | 191 |