شہید کربلا
شہید کربلا
مصنف : مفتی محمد شفیع
صفحات: 111
سیدنا حسین اپنے بھائی سیدنا حسن سے ایک سال چھوٹے تھے وہ نبی کریم ﷺ کے نواسے،سیدنا فاطمہ بنت رسول کے اور سیدنا علی لخت جگر تھے۔ سیدنا حسین ہجرت کے چوتھے سال شعبان کے مہینے میں پیدا ہوئے ۔آپ کی پیدائش پر رسول اللہ ﷺ بہت خوش ہوئے اور آپ کو گھٹی دی ۔رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام حسین رکھا ۔ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا گیا او ر سر کے بال مونڈے گئے ۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن وحسین دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے سایہ عاطفت میں اپنے ان نواسوں کی تربیت کی ۔ سیدنا حسین نے پچیس حج پیدل کیے۔جہاد میں بھی حصہ لیتے رہے۔پہلا لشکر جس نے قیصر روم کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔اس میں بھی تشریف لے گئے۔ وہاں میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری کی وفات ہوئی تو امام کے پیچھے ان کے جنازے میں بھی شریک ہوئے۔آخری مرتبہ جب مکہ میں موجود تھے اور حج کے ایام شروع ہو چکے تھے۔ مگر کوفیوں نے دھوکا دیا اور لکھا کہ ہمارا کوئی امیر نہیں۔ ہم سب اہل عراق آپ کو امیر بنانا چاہتے ہیں آپ جلد ہمارے پاس تشریف لے آئیں۔ اگر آپ تشریف نہ لائے تو قیامت کے دن ہم اللہ تعالیٰ سے شکایت کریں گے کہ ہمارا کوئی امیر نہیں تھا اور نواسہ رسول نے ہماری بیعت قبول نہ کی تھی۔حضرت حسین نے ان باتوں کو سچ سمجھ لیا اور کوفہ روانہ ہو گئے۔روایات کے مطابق سیدنا حسین کو بارہ ہزار خطوط لکھے گئے۔حالات کا جائزہ لینے کے لئے سیدنا حسین نے اپنے عم زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا۔ پہلے ہزاروں کوفیوں نے ان کی بیعت کی پھر بے دردی کے ساتھ ان کو شہید کر دیا۔ حضرت حسین مقام ثعلبہ پہنچے تو مسلم بن عقیل کی شہادت کا علم ہوا۔ آپ نے مسلم بن عقیل کے بیٹوں سے مشورہ کے بعد یزید سے ملاقات کا فیصلہ کر لیا۔ مسلم بن عقیل کے بیٹے ہمراہ تھے ۔کوفہ سے دور مقامِ ثعلبہ سے کوفہ کی بجائے شام کا راستہ اختیار فرما لیا۔مسلم بن عقیل کے قتل میں براہ راست شریک اور خطوط بھیجنے والے غدار کوفیوں نے سمجھ لیا کہ اگر حسین یزید کے پاس پہنچ گئے تو اصل سازش فاش ہو جائے گی۔ ہزاروں خطوط ہمارے خلاف گواہ ہوں گے،حکومت کے ساتھ ان کی مفاہمت ہو جائے گی اور ہمیں پھر کوئی نہیں بچا سکے گا۔ لہذا انہوں نے راستہ روکا ۔خطوط تو نہ ہتھیا سکے مگر ابن زیاد سے براہ راست بیعت یزید کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ سیدنا حسین نے تین شرطیں رکھیں کہ مجھے واپس مکہ جانے دو، یا مجھے کسی سرحد پر جانے دو میں کسی جہاد میں شریک ہو جاؤں گا، یا پھر میں یزید کے پاس چلا جاتا ہوں۔وہ میرا ابن عم ہی تو ہے۔مگر ظالمو نے ایک شرط بھی نہ مانی اورنواسۂ رسول کو شہید کر دیا۔ واقعہ شہادت سیدنا حسین میں اہل نظر کے لیے بہت سی عبرتیں اور نصائح ہیں اس لیے اس واقعہ کے بیان میں سیکڑوں کی تعداد میں مفصل ومختصر کتابیں ہر زبان میں لکھی گئی ہیں لیکن ان میں بکثرت ایسے رسائل ہیں جن میں صحیح روایات اور مستند کتب سے مضامین لینے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔اسی ضرورت کے پیش نظر مولانا مفتی محمدشفیع (صاحب تفسیر معارف القرآن ) نے بعض احباب کے تقاضہ پر تقریبا 65؍سال قبل زیر نظر رسالہ بعنوان’’اسوۂ حسینی یعنی شہید کربلا‘‘ تحریر کیا ۔ جس میں انہوں نے جگر گوشۂ رسول اکرم ﷺ سیدنا حسین اور ان کے اصحاب کا واقعہ شہادت کو مستند تاریخی حقائق کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔
عناوین | صفحہ نمبر |
دعوت فکر و عمل | 6 |
تمہید | 8 |
اسوہ حسینی یاشہید کربلا | 9 |
خلافت اسلامیہ پر ایک حادثہ عظیمہ | 11 |
اسلام پر بیعت یزید کا حادثہ | 12 |
حضرت معاویہ مدینہ میں | 13 |
حضرت معاویہ مکہ مں | 14 |
اجتماعی طور پر معاویہ کو صحیح مشورہ | 16 |
سادات اہل حجاز کابیعت یزید سے انکار | 17 |
معاویہ کی وفات اور وصیت | 17 |
یزید کاخط ولید کےنام | 18 |
حضرت حسین اور ابن زبیر مکہ چلے گئے | 20 |
گرفتاری کے لیے فوج کی روانگی | 21 |
اہل کوفہ کےخطوط | 22 |
حالات میں انقلاب | 24 |
حضرت حسین کاخط اہل بصرہ کے نام | 26 |
ابن زیاد کوفہ میں | 27 |
کوفہ میں ابن زیاد کی پہلی تقریر | 28 |
مسلم بن عقیل کے تاثرات | 29 |
مسلم کی گرفتایری کےلیے ابن زیاد کی چالاکی | 30 |
ابن زیاد ہانی بن عروہ کےگھر میں | 31 |
مسلم ابن عقل کی انتہائی شرافت اور اتباع سنت | 32 |
اہل حق اور اہل باطل میں فرق | 33 |
ہانی کی شرافت اپنے مہمان کو سپرد کرنے سے انکار | 36 |
ہانی بن عروہ پر تشدد مارپیٹ | 37 |
ہانی کی حمایت میں ابن زیاد کے خلاف ہنگامہ | 37 |
محاصرہ کرنےوالوں کا فرار اورمسلم بن عقیل کی بیکسی | 39 |
مسلم بن عقیل کا ستر سپاہیوں سے تنہا مقابلہ | 41 |
مسلم بن عقیل کی گرفتاری | 41 |
مسلم بن عقیل کی حضرت حسین کو کوفہ آنے سے روکنے کی وصیت | 42 |
مسلم بن عقیل کی شہادت اوروصیت | 44 |
حضرت مسلم اور ابن زیاد کا مکالمہ | 45 |
حضرت حسین کاعزم کوفہ | 46 |
عمر بن عبد الرحمٰن کامشورہ | 46 |
حضرت عبد اللہ بن عباس کا مشورہ | 47 |
حضرت حسین کی کوفہ کے لیے روانگی | 49 |
عبداللہ بن جعفر کاخط واپسی کامشورہ | 50 |
ابن زیاد حاکم کوفہ کی طرف سے حسین کے مقابلہ کی تیاری | 52 |
راہ میں عبداللہ بن مطیع سےملاقات | 54 |
مسلم بن عقیل کےعزیزوں کا جوش انتقام | 55 |
حضرت حسین کی طرف سےاپنے ساتھیوں کوواپسی کی بااجازت | 56 |
ابن زیاد کی طرف سے حربن یزید ایک ہزار لشکر لےکر پہنچ گیا | 57 |
حر بن یزید کااعتراف حق | 60 |
حضرت حسین کا تیسرا خطبہ | 61 |
طرح بن عدی کا معرکہ میں پہنچنا | 63 |
حضرت حسین کا خواب | 65 |
علی اکبر کا مومنانہ ثبات قدم | 66 |
عمر بن سعد چار ہزار کا مزید لشکر لے کر مقابلہ پر پہنچ گیا | 67 |
حضرت حسین کا پانی بند کر دینے کا حکم | 68 |
حضرت حسین ؓکا ارشاد کہ تین باتوں میں سے کوئی بات اختیار کر لو | 69 |
ابن زیاد کاان شرطوں کو قبول کرنا اور شمر کی مخالفت | 70 |
حضرت حسین نے ایک رات عبادت گزاری کی مہلت مانگی | 72 |
حضرت حسین ؓ کی تقریر اہل بیت کے سامنے | 73 |
حر بن یزید حضرت حسین کے ساتھ | 75 |
دونوں لشکروں کامقابلہ حضرت حسین ؓ کا لشکر کو خطاب | 76 |
بہنوں کی گریہ و زاری اور حضرت حسین ؓ کااس سے روکنا | 77 |
حضرت حسین ؓ کا درد انگیز خطبہ | 77 |
گھمسان کی جنگ میں نماز ظہر کا وقت | 81 |
حضرت حسین ؓ کی شہادت | 84 |
لاش کو روندا گیا | 85 |
مقتولین او رشہداء کی تعداد | 85 |
بقیہ اہل بیت کوفہ میں اور ابن زیادہ سے مکالمہ | 86 |
یزید کے گھر میں ماتم | 90 |
یزید کی عورتوں کے پاس | 91 |
علی بن حسین یزید کے سامنے | 92 |
اہل بیت کی مدینہ کو واپسی | 94 |
تنبیہ | 93 |
آپ کی زوجہ محترمہ کا غم و صدمہ اور انتقال | 95 |
عبد اللہ بن جعفر کوان کے وہ بیٹوں کی تعزیت | 96 |
واقعہ شہادت کا اثر فضائے آسمانی پر | 96 |
حضرت حسین ؓ کے بعض حالات اور فضائل | 98 |
حضرت حسین ؓ کی زریں نصیحت | 99 |
حضرت حسین ؓ کے قاتلوں کا عبرتناک انجام | 100 |
قاتل حسین اندھا ہو گیا | 101 |
منہ کالا ہو گیا | 102 |
آگ میں جل گیا | 102 |
تیر مارنے والا پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گیا | 103 |
ہلاکت یزید | 103 |
مرقع عبرت | 106 |
نتائج و عبر | 106 |
اسوہ حسینی اور قربانی کا مقصد | 109 |