منکرین حدیث کے چار اعتراضات اور ان کا علمی و تحقیقی جائزہ
منکرین حدیث کے چار اعتراضات اور ان کا علمی و تحقیقی جائزہ
مصنف : عبد الرحمن کیلانی
صفحات: 112
فلسفہ اور سائینٹیفک نظریات نیز مغربی مادی ترقی سے مرعوبیت زدہ ذہن لئے ہوئے اور اتباع نفس کے تحت قرآنی آیات کی من مانی تحریف نما تاویل کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے موجودہ دور کے نام نہاد اہل قرآن (منکرین حدیث) رسول اکرم ﷺ کی ثابت شدہ سنتوں میں تشکیک پیدا کرکے سنت کو ناقابل اعتبار قرار دینے کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں منکرین حدیث کی طرف سے بتکرار و شدت پیش کئے جانے والے بنیادی نوعیت کے چار اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔ وہ سوالات یہ ہیں:
1۔ کیا “ظن” دین بن سکتا ہے۔
2۔ کیا واقعی حدیث اور تاریخ ایک ہی سطح پر ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے؟ (تقابلی جائزہ)
3۔ کثرت احادیث مثلاً یہ اعتراض کہ امام بخاری ؒ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں۔ وہ آ کہاں سے گئیں اور پھر گئیں کدھر؟
4۔ طلوع اسلام والوں کے ہاں معیار حدیث کیا ہے؟
یہ کتاب دراصل منکرین حدیث کے خلاف لکھی گئی مبسوط کتاب “آئینہ پرویزیت” کا ایک باب ہے۔ جسے اس کی اہمیت کے پیش نظر علیحدہ سے شائع کیا گیا ہے۔
عناوین | صفحہ نمبر | |
خطبہ مسنونہ | 13 | |
پیش لفظ | 15 | |
معتزلہ سے ‘طلوع اسلام’تک | 16 | |
قرآنی مسائل | 16 | |
دوام حدیث | 16 | |
دفاع حدیث | 16 | |
‘طلوع اسلام ‘کا اسلام | 17 | |
ابتدائے نگارش | 21 | |
اعتراض نمبر1:حدیث ظنی علم ہے اور ظن دین نہیں ہو سکتا | ||
‘طلوع اسلام’کا دعوی | 29 | |
مغالطے اور جھوٹ | 30 | |
ظن اور یقین کی بحث | 31 | |
لفظ ظن کی لغوی بحث | 32 | |
‘طلوع اسلام’کی دیانت | 35 | |
محدثین کےنزدیک لفظ ظن کا مفہوم | 35 | |
سنن متواترہ ومتعاملہ | 35 | |
احادیث متواترہ | 36 | |
حدیث عزیزاور مشہور | 36 | |
حدیث غریب | 37 | |
حدیث مقبول کی اقسام | 38 | |
حدیث مردود کی اقسام | 38 | |
عقلوں کا فرق | 39 | |
ظن غالب پر دین کی بنیادیں | 40 | |
نگاہ بازگشت | 40 | |
کیا ظن دین ہوسکتا ہے؟ | 42 | |
1-قرآن سے استدلال | 42 | |
1-شہادت | 42 | |
2-ثالثی فیصلہ | 43 | |
3-اعمال کے نتائج | 44 | |
ائمہ رجال اورمولانامودودی صاحب | 45 | |
2-سنت رسول سے استدلال | 48 | |
3-دینی معلومات سے استدلال | 50 | |
4-‘طلوع اسلام’ کےنظریہ سے استدلال | 51 | |
5-عام معمولات سے استدلال | 51 | |
اعتراض نمبر 2:تاریخ اورحدیث کا فرق | ||
صحیح البخاری کے پورے نام کی وضاحت | 53 | |
الجامع | 53 | |
الصحیح | 54 | |
المسند | 70 | |
المختصر | 71 | |
من امور رسول اللہ ﷺ | 71 | |
وسننہ وایامہ | 72 | |
تاریخ اور حدیث کا تقابل | 73 | |
احادیث اور اناجیل | 76 | |
اعجاز حدیث | 77 | |
اعتراض نمبر 3:کثرت احادیث | ||
احادیث کی عددی کثرت کے اسباب | 78 | |
بلحاظ وسعت معانی | 78 | |
بلحاظ اسناد اور طرق | 79 | |
سنت رسول ﷺ کا دارومدار زیادہ ترتعامل صحابہ ؓ پر | 79 | |
موضوع احادیث کا وجود | 80 | |
موضوع احادیث کے طرق اور اسناد | 81 | |
حدیثوں کی تعداد | 81 | |
کذب بیانی اور دھوکہ دہی | 83 | |
احادیث کی اصل تعداد | 84 | |
ذخیرہ احادیث میں رطب ویابس کا اندراج | 85 | |
صحیح احادیث کی صحت کی عقلی دلیل | 86 | |
‘طلوع اسلام’کا سفید جھوٹ | 86 | |
حدیثوں کے ضیاع کی فکر | 87 | |
‘طلوع اسلام’ کی اصل شکایت | 88 | |
کفر کی اصل وجہ | 90 | |
کثرت احادیث اور صحیفہ ہمام بن منبہ ؒ | 91 | |
چند غور طلب حقائق | 92 | |
اعتراض نمبر 4:’طلوع اسلام’ کا معیار حدیث | ||
معیار اول:قرآن کےمطابق ہو | 96 | |
معیار دوم:رسول اللہ ﷺ کی توہین | 101 | |
معیار سوم:توہین صحابہ | 102 | |
معیار چہارم:خلاف علم نہ ہو | 105 | |
معیار پنجم:خلاف عقل نہ ہو | 106 | |
عقل کے استعمال کی دلیل | 108 | |
ایک دھوکہ | 111 |