مغلوں کے زوال سے قیام پاکستان تک
مصنف : سید ہاشمی فرید آبادی
صفحات: 601
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔ سلطنتِ مغلیہ کا بانی ظہیر الدین بابر تھا، جو تیمور خاندان کا ایک سردار تھا۔ ہندوستان سے پہلے وہ کابل کا حاکم تھا۔ 1526ء کو سلطنتِ دہلی کے حاکم ابراہیم لودھی کے خلاف مشہورِ زمانہ پانی پت جنگ میں بابر نے اپنی فوج سے دس گُنا طاقتور افواج سے جنگ لڑی اور انہیں مغلوب کر دیا کیونکہ بابر کے پاس بارود اور توپیں تھیں جبکہ ابراہیم لودھی کے پاس ہاتھی تھے جو توپ کی آواز سے بدک کر اپنی ہی فوجوں کو روند گئے۔ یوں ایک نئی سلطنت کا آغاز ہوا۔ اس وقت شمالی ہند میں مختلف آزاد حکومتیں رائج تھیں۔ علاوہ ازیں وہ آپس میں معرکہ آرا تھے۔ 1526ء میں دہلی اور آگرہ کی فتح کے بعد صرف چند ماہ میں بابر کے سب سے بڑے بیٹے ہمایوں نے ابراہیم لودھی کی تمام سلطنت کو زیر کر لیا۔ 1527ء میں میواڑ کے حاکم سنگرام نے اجمیر اور مالوہ کو اپنی عملداری میں لے رکھا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ مغل سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا تاہم اکبراعظم کے دور میں کچھ عرصے تک اکبر کا ایجاد کردہ مذہب (دین الٰہی ) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہ پڑا اور وہ بہت جلد ہی ختم ہوگیا۔ باقی تمام شہنشاہوں کے دور میں اسلام ہی سرکاری مذہب تھا اور مغل شہنشاہان اسلام کے بہت پابند ہوا کرتے تھے۔ان میں اورنگزیب عالمگیر زیادہ شہرت رکھتے تھے۔ باقی شہنشاہ بھی اسلام کی پیروی کے لحاظ سے جانے جاتے ہے۔انہوں نے نہ صرف اسلامی قوانین رائج کیے اور اسلامی حکومت کو برصغیر کے کونے کونے میں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔مغل ثقافت بھی عمومًا اسلام پر مشتمل تھی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ مغلوں کے زوال سے قیام پاکستان تک‘‘ سید ھاشمی فرید آبادی صاحی کی عمدہ کاوش ہے۔ جس میں مغلی حکومت کے زوال کے اسباب و آثار کو بیان کرتے ہوئے قیام پاکستان تک کے تمام حالات وواقعات کو قلمبند کیا گیا ہے۔
عناوین | صفحہ نمبر |
پیش لفظ | 42 |
عرض ناشر | 43 |
باب اول۔آثارزوال | 45 |
شاہ عالم بہادرشاہ اول | 47 |
سکھوں کی یورش | 50 |
بہادرشاہ کی وفات اورتازہ خانہ جنگی | 53 |
بادشاہ گرسادات | 56 |
بادشاہ گری بادشاہ کشی بن جاتی ہے | 59 |
بادشاہ گروں کاخاتمہ | 63 |
عہدمحمدشاہی | 68 |
نادرشاہ کاحملہ | 71 |
شاہ جہان آبادکی پہلی تاراجی | 74 |
باب دوم:مغل بادشاہی کی تباہی | 79 |
بادشاہ کی قیداورکورسازی | 84 |
احمدشاہ ابدالی | 86 |
مرہٹوں کی داخل اندازی | 89 |
پانی پت کی تیسری لڑائی | 90 |
مرکزسلطنت کی بربادی | 94 |
شاہ عالم ثانی | 96 |
بنگالےسےواپسی بےبسی اورموت | 100 |
باب سوم:ملوک طوائف | 105 |
بنگالہ | 106 |
نیم آزادصوبہ دار | 109 |
انگریزوں کی سازش | 112 |
میرجعفراورمیرقاسم | 117 |
مغربی پاکستان | 121 |
دولت آصف جاہی | 121 |
آصف جاہ ثانی | 132 |
دولت خدادادملسور | 136 |
شیرملسورٹیپوسلطان | 140 |
دولت خداداکاخاتمہ | 142 |
دوآب اوراددھ کی دولائل | 145 |
رسہلیوں کی ریاستیں | 150 |
باب چہارم:اخلاق مذہب زبان | 155 |
عقائد | 159 |
شاہ ولی کی اصلاحی تحریک | 161 |
شاہ صاحب کےجانشین | 166 |
مشاہیرعلماءاورمشائخ | 170 |
چندمشائخ صوفیہ | 173 |
نئی قومی زبان | 177 |
زبان پنکھ پھیلاتی ہے | 182 |
دکنی اوبیات | 186 |
جدیدارودکاظہور | 190 |
باب پنجم:غیرمسلم طاقتیں | 194 |
مرہٹوں کانشوونما | 194 |
مرہسٹہ پیشواؤں کادور | 199 |
مرہٹوں کاعرج | 202 |
مرہٹہ حبھےکاانتشار | 204 |
سکھوں کازورشورپنجاب میں | 206 |
مہاراجہ نجیت سنگھ | 209 |
فرنگی قومیں سواحل ہندپر | 209 |
پرتگال کےفرنگی رقیب | 214 |
دوبلےکےمنصوبے | 216 |
باب ششم:انگریزوں کی آمدابتدائی مقبوحنات | 220 |
پیش قدمی دست درازی | 25 |
دیوانی بن کرحکومت آتی ہے | 228 |
فرنگی سوداگرجنگ کےمیدانوں میں | 231 |
ویلزلی کےمنصوبےاورفتوحات | 237 |
جنگ مرہٹہ کےآخری معرکہ | 241 |
باب ہفتم:تاجری تاج وری بن جاتی ہے | 247 |
پنڈارےمرہٹوں سےآخری جنگ | 254 |
تازہ محاربات ومقبوضات | 250 |
سندھ کی پامالی | 263 |
معاملات افغانستان | 266 |
جنگ تباہی پسپائی | 268 |
امن کی فتوحات | 273 |
کمپنی کےآئین انتظام | 276 |
فوجی تنظیم | 281 |
سیداحمدصاحب کی تحریک | 285 |
حج کاسفر | 290 |
جہادکااعلان آغاز | 292 |
جنگی معرکےامامت شرعی حکومت | 295 |
مقامی سردراوں کی بغاوت | 299 |
بالاکوٹ کی ہزیمت | 301 |
شاہ اسماعیل شہید | 303 |
تحریک اصلاح کےبعدکی لہریں | 306 |
مولانادلایت علی عظیم آبادی | 308 |