حیات شبلی
مصنف : سید سلیمان ندوی
صفحات: 679
علامہ شبلی نعمانی اردو کے مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں۔ خصوصاً اردو سوانح نگاروں کی صف میں ان کی شخصیت سب سے قدآور ہے۔ مولانا شبلی نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سیکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے جو اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں ۔شبلی نعمانی 1857ء اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ حبیب اللہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی سے ریاضی، فلسفہ اور عربی کا مطالعہ کیا۔ اس طرح انیس برس میں علم متدادلہ میں مہارت پیدا کر لی۔ 25 سال کی عمر میں شاعری، ملازمت، مولویت کے ساتھ ہر طرف کوشش جاری رہی،1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ وہاں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1882 میں شبلی نے ’’علی گڑھ کالج‘‘ سے تعلق جوڑ لیا۔ یہاں وہ عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سر سید سے ملے ان کا کتب خانہ ملا، یہاں تصانیف کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اردو ادب کے دامن کو تاریخ، سیرت نگاری، فلسفہ ادب تنقید اور شاعری سے مالا مال کردیا، سیرت نگاری، مورخ، محقق کی حیثیت سے کامیابی کے سکے جمائے 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ چلے گئے۔ 1913ء میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ حیات شبلی‘‘ علامہ شبلی نعمانی کے نامور شاگرد اور کی رفاقت میں 8برس گزارنے والے مولانا سید سلیمان ندوی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی کے سوانح حیات اور ان کےعلمی وعملی کارنوں کو بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے ۔مولانا شبلی کی حیات وخدمات پر یہ ایک مستند کتاب ہے ۔
عناوین | صفحہ نمبر |
فہرست | 1 |
فہرست رجال وحواشی | 33 |
حیات شبلی | 1 |
سوانح کے ذرائع علم | 1 |
مولانا کی زندگی میں ان کی سوانح عمری کاخیال | 2 |
وفات کے بعدان کےسوانح پرمضامین اوررسالے | 4 |
حیات شبلی کی ترتیب کاآغاز وانجام | 4 |
معاونوں کاشکریہ | 6 |
حیات شبلی کےمعتقد ومنقتد | 6 |
عہد جدید کامعلم اول | 7 |
کتاب کےضمنی محباحث | 7 |
تصویر کابدل | 7 |
کتاب کانام | 8 |
محسن کاشکرگزاری | 8 |
مولنا کےتین بڑے احسانات | 8 |
دیباچہ حیات شبلی | |
ہرزمانہ میں اس زمانہ کی ضرورت کےمطابق اشخاص کاپیداہونا | 9 |
مغلون کےآخری دورمیں دو عظیم الشان فتنے | 10 |
ان کےاستیصال کےلیےمجدد الف ثانی اروشاہ ولی اللہ کاظہور | 10 |
سکھوں کی قوت اوراکابردہلی ورائے بریلی کی تحریک اصلاح ودعوت | 10 |
انگریزوں کاعروج عیسائی مشزیوں کااسلام پر حملہ | 10 |
ڈاکٹر وزیر مولانا رحمت اللہ وغیرہ کی مدافعت | 10 |
آریہ تحریک کےمقابلہ کےلیے مولنا قاسم کاظہور | 10 |
ردبدعات کےلیے مولنا رشید احمد گنگوہی وغیرہ کی خدمات | 11 |
علوم جدید ہ کی شبہات آفرینی اورمولوی کرامت علی جون پوری | 11 |
مولوی چراغ علی اورسرسید کےکام | 11 |
مستشرقین یورپ کادوراورسلام اور مسلمانوں کےعلوم وفنون تاریخ تمدن پراعتراضات | 11 |
نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اثرپذیری وگم رہی | 12 |
اس دورکاہیرو اوراس کی خدمات | 12 |
مولانا کامقصد زندگی | 12 |
مستشرقین یورپ کےاعتراضات کارداوران کی غلط فہمیوں کاازالہ | 12 |
ہرزمانہ کی ضرورت کےمطابق علماء کی ایک جماعت کی تیاری | 12 |
قدیم نصاب تعلیم کی اصلاح کاخیال | 12 |
اس کی مخالفت | 12 |
دارالعلوم ندوہ کی تایسیں اورمخالفت میں کمی | 12 |
جدیدفلسفہ کی کتابوں کےداخل نصاب ہونے پر اصرار | 12 |
عربی نصاب تعلیم میں انگریزی کاداخل کرنا | 13 |
قدیم فلسفہ زمنطق کےخارج ازنصاب کیےجانے پر استفسار اورمولانا کاجواب | 13 |
انگریزی کےلازمی کیےجانے پر میرااختلاف اورمولانا کےاثرات | 13 |
مولانا کےمجمل کارنامہائے زندگی | 15 |
جزیہ کےمتعلق مولانا کی نئی تحقیق اوراس کی مقبولیت | 17 |
مولانا کامضمون حقوق الذمیین اورمعترضین اسلام کارد | 19 |
کتب خانہ اسکندریہ کےمتعلق یورپ کاالزام اورمولانا کی تردید | 20 |
جرجی زیدان کی تاریخ تمدن اسلامی پر تبصرہ | 20 |
ہندوؤں پرعالم گیرکےمفروضہ مظالم اوراس کاجواب | 20 |
مسلمانوں کےعلمی وتمدنی کارناموں پرمضامنی | 21 |
الفاریق میں اسلامی طرز حکومت کی تصویر | 21 |
تاریخی مسائل کی جدید تحقیق نمونہ مولناکی تصنیفات میں | 21 |
قرآن پاک کی تحریف کےمتعلق ڈاکٹر منکاناکے آرٹکل کاجواب | 22 |
اردو کو تصنیفی زبان بنانے اوراس کاترقی میں مولنا کاحصہ | 22 |
مولانا کی تصنیفات ادب وانشا کا اعلا ترین نمونہ ہیں | 23 |
ہرقسم کےموضوع پر طبع آزمائی اوردائرہ تصنیف وتالیف کی توسیع | 23 |
مولانا کی تصنیفات میں نیا مناظرانہ رنگ اوراس کی پسندیدگی | 23 |
ان کی ہرکتاب مناظر انہ اورکسی نہ کسی فرقہ کےرد میں ہے | 24 |
ان کی کلامی تاریخی کتابیں اورغیر مسلم معترضین | 24 |
مولنا کےطریقہ تصینف کی تقلید | 24 |
مولانا کاوسیع مطالعہ اوراس کافیض | 24 |
نئی کتابون کی تلاش وجستجو فراہمی مطالعہ کاذوق | 25 |
دوسرے اداروں اورکتب خانوں کو ان کی خریداری کی ترغیب | 25 |
مولنا کی علمی وادبی دعوت تبلیغ کافروغ | 25 |
مولانا کےطرز واسلوب تحریر کی عام تقلید | 25 |
علماکےایک مرکزی ادرہ کےقیام کاتخیل | 25 |
ندوہ کےایک اجلاس میں علماکےفرائض پر ایک تقریر | 25 |
ندوہ کی مرکزیت کی دعوت | 26 |
سیاسیات سےدل چسپی | 26 |
کانگریس کی حمایت | 26 |
مسلم لیگ کےزاویہ نظر کی تبدیلی میں مولانا کےسیاسی مقالات اورنظموں کاحصہ | 26 |
ہندوستان میں اتحاد اسلامی کےداعی اول | 26 |
مسلمانوں کاموجودہ سیاسی ذوق اورسیاسی بیداری میں مولانا کاحصہ | 26 |
علما کےاپنے ساتھ رکھنے کی کوشش اوراس میں ناکامی | 26 |
تکفیر اورمولانا کی برات | 28 |
اسلام کی تبلیغ میں متکلمانہ طریقوں کی بے تاثیری | 28 |
علم کلام اسلام کےمخالفین ومعترضین کےخلاف بہ طور ایک آلہ کے | 30 |
علم کلام کےذریعہ اسلام کی خدمت | 30 |
متکلمین کااصل مقصد علم کلام سےعلاحدگی | 33 |
ذات نبوی ﷺ کےساتھ عقیدت | 33 |
سیرت وسیرت نبوی ﷺ کےلیےتیاری اوراحادیث وسیرت کی کتابوں کامطالعہ | 33 |
آخری عمر کےمقاصد زندگی | 33 |
ندوہ کی اصلاح | 33 |
اسلام کی اشاعت وحفاظت | 33 |
سیرت نبوی ﷺ کی تکمیل زندگی کاآخری کارنامہ | 33 |
سیرت کی تصنیف کاعلان اورمسلمانوں کی صدائے لییک | 34 |
سیرت کی اشاعت کے فیوض وبرکات | 34 |
مسلمانوں مین عام سیرت نگاری کاذوق | 34 |