ازالۃ الاوہام جلد دوم
مصنف : رحمت اللہ خلیل الرحمن کیرانوی ہندی
صفحات: 497
اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالی ایک ہے ۔اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔وہ ہر چیز پر قادر ہے۔نہ اس کی بیوی ہے اورنہ ہی اس کا کوئی بیٹا ہے ۔لیکن اس کے برعکس عیسائی عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں ،جس کے مطابق اللہ تعالی، سیدنا عیسیٰاورسیدہ مریم علیھا السلام تینوں خدا ہیں اور یہ تینوں خدا مل کر بھی ایک ہی خدا بنتے ہیں۔ یعنی وہ توحید کو تثلیث میں اور تثلیث کو توحید میں یوں گڈ مڈ کرتے ہیں کہ انسان سر پیٹ کے رہ جائے اور پھر بھی اسے کچھ اطمینان حاصل نہ ہو۔ مثلاً وہ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ ایک پیسہ میں تین پائیاں ہوتی ہیں اور یہ تینوں مل کر ایک پیسہ بنتی ہیں۔ اس پر یہ اعتراض ہوا کہ جب سیدہ مریم علیھا السلام اورسیدنا عیسیٰ پیدا ہی نہ ہوئے تھے تو کیا خدا نامکمل تھا اور اگر نامکمل تھا تو یہ کائنات وجود میں کیسے آ گئی۔ اور اس پر فرماں روائی کس کی تھی؟ غرض اس عقیدہ کی اس قدر تاویلیں پیش کی گئیں جن کی بنا پر عیسائی بیسیوں فرقوں میں بٹ گئے۔ پھر بھی ان کا یہ عقیدہ لاینحل ہی رہا اور لاینحل ہی رہے گا۔زیر تبصرہ کتاب ” ازالۃ الاوہام”ہندوستان کے معروف مبلغ ،داعی ،محقق مسیحیت اور عیسائیت کی جڑیں کاٹنے والے اور انگریزی استعمار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی ہے۔آپ نے عیسائیت کے رد میں عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں اور کتابیں لکھی ہیں۔اس کتاب میں موصوف نے عقیدہ تثلیث،تحریف بائبل ،بشارات محمدی اور عیسائیوں کے متعدداعتراضات کا عقلی ونقلی ،الزامی وتحقیقی، مدلل اور مسکت جواب دیا ہے۔رد عیسائیت پر اتنی علمی وتحقیقی کتاب آپ کو عربی زبان سمیت کسی زبان میں نہیں ملے گی۔عیسائیت کے خلاف کام کرنے والے اہل علم کے لئے یہ ایک گرانقدر تحفہ ہے۔اللہ تعالی دفاع توحید کے سلسلے میں انجام دی جانے والی ان کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین
عناوین | صفحہ نمبر | |
فصل اول | ||
عقیدہ تثلیثت اقوال مسیح کی روشنی میں | 13 | |
عقیدہ تثلیث حواریوں کےاقوال کی روشنی میں | 25 | |
فصل دوم | ||
الوہیت مسیح پر نصاریٰ کے دلائل | 33 | |
پہلادلیل اور اس کا بطلان | 34 | |
دوسرا دلیل اور اس کی تردید | 35 | |
بائبل کا لفظ ’’بیٹا ‘‘ کا استعمال | 37 | |
لفظ اب ، ابن وغیرہ کا صحیح معنی | 42 | |
لفظ اب ، ابن وغیرہ کا ایک اور استعمال | 45 | |
حضرت مسیح پرلفظ ’’ابن ‘‘ کا اطلاق | 46 | |
تیسری دلیل اور اس کا ابطال | 50 | |
چوتھی دلیل اور اس کا رد | 51 | |
پادری فنڈر کارد | 54 | |
پانچویں دلیل اور اس کا انجام | 54 | |
معترض کی ذکر کردہ آیات کا صحیح مطلب | 57 | |
انجیل یوحنا کی آیات کی درست توجیہ | 58 | |
مسیحی پادریوں کے ایک شبہ کا جواب | 60 | |
یہودیوں کا رویہ اور مزاج | 60 | |
پادری فنڈرکی ایک عبارت کا ردہ | 62 | |
چھٹی دلیل اور اس کا جواب | 64 | |
ساتویں دلیل اور اس کی حقیقت | 69 | |
پولوس کے قول سے استدلال کا جواب | 72 | |
معترض کی ذکر کردہ عبارات کا صحیح مطلب | 72 | |
آٹھویں دلیل اور اس کا ازالہ | 80 | |
نویں دلیل اور اس کا دفعیہ | 84 | |
بائبل میں حذف مضاف کی مثالیں | 87 | |
لفظ ’’کلمہ ‘‘ کا ’’امرء کلام ‘‘ کےمعنی میں استعمال ہونے کے دلائل | 94 | |
دوسرے استدلال کا جواب | 101 | |
دسویں دلیل اور اس کا حشر | 103 | |
گیارہویں دلیل اور اس کا رد | 107 | |
معجزات مسیح کی حقیقت | 107 | |
ابنیاء بنی اسرائیل کے معجزات | 109 | |
صاحب تفسیر کشاف کا ایک واقعہ | 111 | |
فصل سوم | ||
عہد عتیق سے الوہیت مسیح پر دلائل کا ابطال | ||
دلیل اور اس کا رد | 112 | |
دلیل دوم اور اس کی تردید | 114 | |
دلیل سوم اور اس کا ابطال | 115 | |
دلیل چہارم اور اس کا دفعیہ | 116 | |
دلیل پنجم اور اس کا بطلان | 119 | |
مسیحی حضرات کی ایک تاویل | 120 | |
استدلال میں ذکر کردہ آیات کا صحیح مطلب | 121 | |
دلیل ششم اور اس کا رد | 123 | |
دلیل ہفتم اور اس کی تردید | 125 | |
باب سوم | ||
فصل اول | ||
قوم بنی اسرائیل کا ابنیاء عظام سے سلوک | ||
قوم بنی اسرائیل کا ابنے ابنیاء عظام سے سلوک | 132 | |
یہود کا حضرت موسیٰ سے سلوک | 133 | |
یہود کاحضرت یرمیاہ سے سلوک | 134 | |
یہود کا حضرت مسیح سےسلوک | 135 | |
حضرت مسیح کی قتل کی تدابیر | 137 | |
یہود کا حواریوں سے سلوک | 138 | |
فصل دوم | ||
حضرت عیسیٰ کےمتعلق بائبل کی بشارات | ||
بشارت نمبر1(متی باب 1آیت 22) | 141 | |
بشارت نمبر2(متی باب 2آیت 5) | 143 | |
بشارت نمبر3(متی باب2آیت 15) | 145 | |
بشارت نمبر4(متی باب2آیت 17) | 148 | |
بشارت نمبر5(متی باب 2آیت 23) | 150 | |
بشارت نمبر6(متی باب 8آیت 17) | 151 | |
بشارت نمبر7(متی باب 12آیت 17) | 153 | |
بشارت نمبر8(متی باب 13ےیت 35) | 155 | |
بشارت نمبر9( متی باب21آیت 4) | 156 | |
پادری فنڈر کے اعتراض کا جواب | 161 | |
بشارت نمبر10(متی باب27آیت 9) | 162 | |
بشارت نمبر11(متی باب27آیت 35) | 163 | |
بشارت نمبر12(یوحنا باب 1آیت 45) | 164 | |
بشارت نمبر13(لوقا باب 24آیت 27) | 166 | |
بشارت نمبر 14( عبرانیوں کےنام خط باب 1) | 167 | |
بشارت نمبر 15(سموئیل دوم باب 7آیت 4) | 169 | |
بشارت نمبر 16(زبور 97) | 171 | |
بشارت نمبر17(زبور 102) | 172 | |
فصل سوم | ||
حضرت مسیح کی پیشنگوئیاں | ||
پہلی پیشنگوئی (متی باب 5آیت 11) | 174 | |
دوسری پیشنگوئی ( متی باب 7آیت 15) | 176 | |
تیسری پیشنگوئی ( متی باب 12آیت 39) | 178 | |
چوتھی پیشنگوئی ( متی باب 26آیت 20) | 179 | |
پانچویں پیشنگوئی ( متی باب 26آیت 31) | 180 | |
ایک اہم تقابل | 181 | |
باب چہارم | ||
فصل اول ( چار ضروری فوائد) | ||
اثبات نبوت کے لیے بشارت ضروری نہیں | 184 | |
بشارت کے لیے مفصل اورواضح ہونا ضروری نہیں | 185 | |
اہل کتاب کو مسیح اور ایلیا کے علاوہ ایک اور نبی کا انتظار تھا | 189 | |
حضرت عیسیٰ خاتم الانبیاءی نہ تھے | 191 | |
فصل دوم | ||
خیر الوری پر مطاعن واعتراضات کا جواب | ||
مسیحیوں کے ایک اور استدلال کا جواب | 193 | |
پہلا اعتراض : ذکر محمدی ﷺ آسمانی کتب میں نہ ہونا | 196 | |
دوسرا اعتراض : تعداد ازواج | 197 | |
انبیاء ؑ اور تعداد ازواج | 199 | |
حضرت ابراہیم اور تعداد ازواج | 199 | |
حضرت یعقوب اور تعداد ازواج | 199 | |
حضرت موسیٰ اور تعداد ازواج | 200 | |
حضرت جدعون اور تعدا ازواج | 201 | |
حضرت داؤد اور تعداد ازواج | 201 | |
حضرت سلیمان اور تعداد ازواج | 202 | |
ایک سے زائد عورت سے نکاح کی اجازت | 203 | |
ایک رکیک تاویل | 206 | |
حضرت عیسیٰ کا نکاح نہ کرنا | 208 | |
ایک مسیحی مصنف کا گستاخانہ کلام | 211 | |
الزامی جواب | 215 | |
تیسرا اعتراض حضرت زینب سے نکاح | 216 | |
واقعہ کا صحیح خلاصہ | 218 | |
اختلاف شرائع | 219 | |
نسخ احکام | 222 | |
انبیاء اور بشری تقاضے | 223 | |
ایک اور شبہ کا جواب | 225 | |
پادری فنڈر کا جواب | 228 | |
ایک مسیحی مؤلف کی تردید | 234 | |
چوتھا اعتراض تحریک عسل | 235 | |
واقعہ کی صحیح وضاحت | 236 | |
بائبل سے چند مثالیں | 237 | |
رسالت عیسوی صرف بنی اسرائیل کے لیے تھی | 243 | |
پانچواں اعتراض: حضرت محمدﷺ معجزات نہ رکھتے تھے | 244 | |
بائبل سے مطلوبہ معجزہ پیش نہ کرنے کے شواہد | 246 | |
انصاف پسندانہ بات | 251 | |
معجزات نبوی ﷺ و شق القمر ، معراج | 254 | |
معجزہ بدر و خندق اور سچی پیشگوئیاں | 256 | |
نگشت سےپانی جاری ہونا | 258 | |
تکثیر طعام | 260 | |
جانوروں کا گواہی دینا درخت کا جدائی میں رونا | 262 | |
درخت کا آب کے فراق میں رونا | 263 | |
بتوں کا اشارے سےگرنا، مردوں کا زندہ کرنا | 264 | |
مریضوں کو شفا بخشا ،لکڑی کا تلوار بن جانا | 265 | |
لکڑی کا تلوار بن جانا | 266 | |
بنی کریم ﷺ کی پیشگوئیاں | 280 | |
قرآن مجید کا چیلنج | 280 | |
غزوہ بدر میں کامیابی | 282 | |
استخلاف و تمکین فی الارض | 283 | |
غلبہ روم | 285 | |
احزاب کی آمد | 287 | |
سخت جنگجو قوم سے لڑائی | 287 | |
فتح مبین اور کثرت مال غنیمت | 289 | |
فتح مکہ کی خبر | 290 | |
غلبہ اسلام کی خبر | 291 | |
کفارمکہ کا مغلوب ہونا | 292 | |
احادیث نبویہ ﷺ میں مذکور پیشگوئیاں | 293 | |
ساتواں اعتراض : مسئلہ جہاد | 299 | |
اسلام کا نظریہ جہاد | 299 | |
سرکشوں کو سزا ملنے کی چند مثالیں | 305 | |
بائبل کا تصور جنگ | 307 | |
حضرت موسیٰ اور جہاد و قتال | 310 | |
حضرت یوشع اور جہاد و قتال | 312 | |
حضرت داؤد کا جہاد و قتال | 314 | |
حضرت عیسیٰ کا جہاد و قتال | 316 | |
پولش کی گواہی | 316 | |
جہاد اسلام میں سابقہ شریعتوں کےجہاد میں فرق | 320 | |
آٹھواں اعتراض : یہود ومشرکین کا آپ ﷺ کو ساحر ، شاعر ، کاہن ، مجنون کہنا | 323 | |
نواں اعتراض : خودستانی کا الزام | 323 | |
حضرت مسیح کا خود اپنی تعریف کرنا | 323 | |
پولوس کا اپنے منہ میاں مٹھو بننا | 324 | |
دسواں اعتراض : استغفار انبیاء ؑ | 326 | |
تین تمہیدی باتیں | 328 | |
لفظ ’’ذنب ‘‘ کا مطلب | 333 | |
لفظ’’ضال‘‘ کا صحیح معنی | 337 |