عظیم یا پسندیدہ کتب کی فہرست بنانا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ یہ آپ اپنی بجائے دوسروں کے لیے بنا رہے ہوتے ہیں تاکہ اُنھیں کچھ راہنمائی کے علاوہ تحریک بھی مل سکے۔ نیز ضروری ہے کہ اپنی علمیت جتانے کی بجائے ایسی کتابوں کے متعلق بتایا جائے جو رائج اور غالب طبقے کو سمجھ میں آنے والی زبان میں ہو۔ سو یہاں اُردو کی یا اردو میں دستیاب کتب کو مدنظر رکھا ہے۔
کئی قارئین کی فرمائش پر اگر میں ایسی کتب کا ذکر کرنا چاہوں جو قاری کو بہت اندر تک ہلا کر رکھ دیتیں اور آخر میں سوالات سے لبریز چھوڑ دیتی ہیں تو اُن میں سب سے پہلے سب سے مختصر کتاب آتی ہے: ارنسٹ ہیمنگوے کا بوڑھا اور سمندر۔ ایک سو سے کم صفحے کا یہ ناول اور اِس پر بنی ہوئی انتھونی کوئن کی مووی اس قدر سادہ اور عمیق ہے کہ اُس کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
دوسری کتاب بلکہ کتب بھی بیوروکریٹک عمارت میں بسنے والے چوہوں کے متعلق ہے جنھیں کبھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ پوری عمارت کیسی ہے، اور اِس میں کون کیا کام کرتا ہے۔ یہ فرانز کافکا کے دو ناول دی ٹرائل اور کاسل ہیں۔ اول الذکر کتاب کا ترجمہ میں نے مقدمہ کے نام سے کیا اور دوسرے ناول کا ترجمہ زیرِ تکمیل ہے۔ ان دونوں پر بھی موویز بن چکی ہیں۔
بیسویں صدی میں کارل ساگان کی کاسموس شاید ایسی کتاب ہے جس نے سائنس کو تقریباً ہر کسی سے متعارف کروایا۔ اس کے متعلق نئے سرے سے کچھ تعارف کروانا زائد از ضرورت ہے۔ یہی معاملہ سٹیفن ہاکنگ کی ’’بڑے سوالوں کے مختصر جواب‘‘ کا ہے۔
سیمون دی بووا کی ’دی سیکنڈ سیکس‘ اپنے موضوع پر بے مثال اور نہایت منفرد کتاب ہے۔ ہماری فیمنسٹوں کو اُس سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے، اگر وہ سیکھنا چاہیں تو۔ بلکہ شاید مردوں کو اِس کے ذریعے نصف انسانیت کی تاریخ جانچنے کا زیادہ موقعہ ملے گا۔ یہ کتاب عورتوں کے بارے میں آپ کے تصور بری طرح جھنجوڑتی ہے۔ 1997ء میں اِس کا ترجمہ کیا تھا۔ پبلشر سے منتیں کی ہیں کہ دوبارہ کمپوز کروائے تو میں نظر ثانی کروں گا۔ مگر ہمارا پبلشر محض دکان دار ہے۔
وِل ڈیورانٹ کی عظیم ترین ذہن اور نظریات بہت مختصر، جامع اور اشتہا انگیز تحریر ہے۔ یہ تاریخ و تہذیب کے معاملے میں آپ کے ساتھ وہی کچھ کرتی جو سیکنڈ سیکس صنفی تفہیم اور کاسموس سائنسی تفہیم کے معاملے میں۔
طٰہ حسین کی الفتنۃ الکبری، علامہ احمد امین مصری کی فجر الاسلام (اگر دستیاب ہو) اور مودودی کی خلافت اور ملوکیت ابتدائی اسلامی دور کے متعلق بہت سی بصیرتیں دیتی ہیں۔ بعد کے دور پر فلپ کے حِتی کی ’’تاریخِ عرب‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتاب پندرھویں صدی پر ختم ہونا اُن لوگوں کو خاطر خواہ جواب دیتا ہے جن کے خیال میں ’مغربی‘ مؤرخین نے مسلمانوں کی تاریخ کو نظر انداز کیا۔
ڈاکٹر مبارک علی کی تاریخ اور آگہی اور تاریخ اور عورت، سبط حسن کی نویدِ فکر، اور علی عباس جلالپوری کی روایات فلسفہ، روح عصر اور عام فکری مغالطے ذہنوں کے جالے صاف کرنے کرنے میں معاون ہیں۔ نوعِ انسانی کی تاریخ از حراری بہترین مگر کچھ اوور ریٹڈ ہے۔
فلسفے کے موضوع پر اردو میں ہمارے پاس ول ڈیورانٹ کی داستانِ فلسفہ اور نشاطِ فلسفہ کے سوا کیا ہے؟ سارتر کی ایک کتاب شیما مجید نے بھی مرتب کی تھی۔ نفسیات میں لے دے کر فرائیڈ کی ایک دو ترجمہ شدہ کتب ہی ملیں گی۔ سو اُنہیں پر اکتفا کرنا ہو گا۔
ناولوں میں ٹرین ٹو پاکستان اور ہرمین ہیس کا سدھارتھ بہت متاثر کن ہیں۔ افسانوں میں منٹو بے چارے کے ساتھ پبلشروں نے عجیب سلوک کیا۔ اب اُس کا افسانوی مجموعہ ٹھنڈا گوشت اپنی اصل حالت میں شاید ہی ملے۔ لہٰذا منٹو کے کلیات ہی دیکھنا پڑیں گے۔ رسول حمزاتوف کی میرا داغستان بھی سوچ کے لیے تخمیر ہے۔
شاعری میں مجھے غالب، فیض اور ن م راشد کے مقابلے پر بہ مشکل ہی کوئی دکھائی دیتا ہے۔
بشریات میں جارج جیمز فریزر کی شاخ زریں اور میری ترجمہ کردہ انسان، خدا اور تہذیب جیسا کوئی نہیں۔ ول ڈیورانٹ کی نئی کتاب ’’ہمارا مشرقی ورثہ‘‘ تاریخ و تہذیب کے متعلق بہت سی دستیاب کتب کی ضرورت ختم کر دے گی۔ وہ اپنے اندر بہت کچھ سمیٹے ہوئے ہے۔
اسلامی شریعت کا انسائیکلوپیڈیا اور فقہ کا انسائیکلوپیڈیا اپنے موضوع پر لاجواب اور بے مثال ہیں۔
ایسا نہیں کہ میں نے ’اپنی‘ ترجمہ کردہ کئی کتب کو شامل کر دیا۔ میں نے وہ ترجمہ ہی اِس لیے کی تھیں کیونکہ وہ ’’بڑی‘‘ اور متاثر کن ہیں۔ نیز ان کتب کی فروخت سے پبلشر ہی مزید امیر ہوتا ہے، مجھے کوئی فائدہ نہیں۔
اگر آپ کو لگے کہ فلاں کتاب بھی شامل ہونی چاہیے تھی، تو اپنی سی ایک فہرست بنانے کی کوشش کریں۔
فیس بک پوسٹ
Prev Post
You might also like